جواب:
وَ مَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب
جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔
شعائر الله
شعائر: شعیرہ کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت اور نشانی
إِنَّ الصَّفا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ ... (بقره/ آیه١٥٨)
شعائر اللہ وہ جگہیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عبادت گاہ قرار دیا ہے اور عبادت کی پر مخصوص جگہ کو اس عبادت کا مشعر شمار کیا جاتا ہے،اس بنا پر صفا اور مروہ دو مقامات اور دو عبادت گائیں ہیں جو انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہیں۔
ارشاد ہوتا ہے:وَ الْبُدْنَ جَعَلْناها لَكُمْ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيها خَيْرٌ۔۔۔ (حج/آیه٣٦)
(اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے)
قربانی کے اونٹ شعائر اللہ ہیں، ان کو ذبح کرنے سے (جو خداتعالیٰ کا حکم ہے) خدا کی عبادت کی جاتی ہے ،اسی وجہ سے یہ خداوند متعال کی یاددلاتی ہیں۔
اب اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب صفا، مروہ اور حج کی قربانی، کیونکہ یہ خداوند متعال کی یاددلاتی ہیں،انہیں شعائراللہ میں شمار کیا جاتا ہے تو خدا کے اولیاء، جن کے پیشوا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی عترت طاہرہ سلام اللہ علیہم اجمعین ہیں یقیناً سب سے عظیم شعائر الہی ہیں کیونکہ یہ امکان و ظہور کی دنیا میں خدا کے خلیفہ،اس کے انوار اور صفات کی تجلی ہیں اور ان کے ذریعے خداوند متعال کی عبادت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: بِنَا عُرِفَ اللَّهُ وَ بِنَا عُبِدَ اللَّهُ نَحْنُ الْأَدِلَّاءُ عَلَى اللَّهِ وَ لَوْلَانَا مَا عُبِدَ اللَّه
(خدا صرف ہمارے ذریعے پہچانا جاتا ہے اور خدا کی عبادت صرف ہمارے ذریعہ ہی کی جاتی ہے، ہم خدا کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں ، اگر یہ ہم نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ ہوتی۔)
امام حسین علیہ السلام سب سے بڑی شعائر میں سے ہیں۔
جب صفا اور مروہ کے دو پہاڑ - جو اس کوشش کی یاد دلاتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ جناب حاجرہ نے اپنے ننھے اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں سات بار ان کے چکر لگائے – شعائر الہی میں سے ہیں تو کربلا کیسے شعائر الہی میں سے نہیں ہو سکتی جبکہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اپنے علی اصغر کے لیے پانی کا ایک قطرہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن دشمنانِ خدا نے ان کی درخواست کا جواب ان کے شیر خوات کے گلے پر تین بھال کے تیر مار کر دیا، اگر حج کی قربانی جو ایک جانور سے زیادہ کچھ نہیں لیکن چونکہ یہ قربابی خدا کے لیے ہے لہذا اس کا شمار شعائر الہی میں ہوتا ہے اور اس کا خاص احترام کیا جاتا ہے تو عاشورہ کے دن کی قربانیاں کیسے شعائر الہی کا حصہ نہیں ہوسکتی ہیں؟ جبکہ وہاں سب اللہ کی مخلوق کے بہترین انسان،اس کے ولی اور انصاراللہ تھے ،اس کے علاوہ کہ خدا کے گھر کو کربلا سے حرمت اور عظمت حاصل ہوئی ہے اور کربلا بھی اس پاک خون اور اس میں موجود اس مقدس جسم کی وجہ سے فیض کا ذریعہ بنی ہے اور مقدس ہوئی ہے، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:کعبہ کی سرزمین نے اپنی شان میں کہا: کون سی سرزمین ہے جو میری مانند ہے جب کہ خدا نے میرے اوپر اپنا گھر بنایا ہے دور دور سے لوگ میری طرف توجہ کرتے ہیں ، مجھے حرم خدا اور مقام امن قرار دیا گیا ہے؟!!خداوند متعال نے اس کی طرف وحی کی اور فرمایا: بس کرو،حوصلہ رکھو، میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس چیز کو تم اپنے لیے فضیلت سمجھتی ہو وہ اس فضیلت کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے جو میں نے کربلا کی سرزمین کو دی ہے، سمندر کے پانی کا ایک قطر ہے جس میں سوئی ڈالی جائے اور وہ پانی کا قطرہ اپنے ساتھ لے آئے اور اگر کربلا کی سرزمین نہ ہوتی تو یہ فضیلت تمہارے لیے نہ ہوتی اور اگر اس سرزمین میں موجود ہستیاں نہ ہوتیں تو میں تمہیں اور اس گھر کو خلق ہی نہ کرتا جس پر تمہیں فخر ہے لہٰذا تم پرسکون رہو، خاموش رہو، عاجزی اور نرمی اختیار کرو، کربلا کی سرزمین کے مقابلے میں تکبر سرکشی اور طغیانی نہ کرو ورنہ میں تمہیں دھنسا کر جہنم کی آگ میں ڈال دوں گا۔
قرآن مجید شعائر کی تعظیم کا حکم دیتا ہے اور اسے تقویٰ کی علامت کے طور پر پہچنواتا ہے،ارشاد ہوتا ہے: وَ مَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب
(جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی)
اس دوران اہل بیت علیہم السلام کی ولادت و شہادت کا احترام کرنا بالخصوص امام حسین علیہ السلام کے ایام عزا کی تعظیم اور احترام سب سے بڑی شعائر الہی میں سے ہے اور ان لوگوں کے دلوں کے تقوی کی علامت جو اس کی حرمت کا خیال رکھتےے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔
عزائے امام حسین علیہ السلام کو اہمیت دینے کی ضرورت اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود امام حسین علیہ السلام اور اس سرزمین کو سب سے زیادہ قابل احترام قرار دیا ہے نیز بہت ساری ایسی روایات بھی ہیں جن میں آیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے انبیاء الہی کے لیے امام حسین علیہ السلام کے مسائب بیان کیے ہیں اور وہ ان پر روئے ہیں اور گریہ کیا ہے نیز تمام انبیاء علیہم السلام نے امام حسین علیہ السلام کے مصائب میں ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
خداوند متعال کے نزدیک امام حسین علیہ السلام اور کربلا کی سرزمین کا احترام
امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی زمین کو بنانے اور اسے حرم قرار دینے سے سے چوبیس ہزار سال پہلے کربلا کی زمین کو بنایا اور اسے ایک مقام امن اور بابرکت حرم قرار دیا نیز جب اللہ تعالیٰ زمین کو ہلانا چاہے گا (شاید یہ قیامت کی طرف اشارہ ہے) تو کربلا کی زمین کو اس کی شان و شوکت کے ساتھ بلند کرے گا جبکہ وہ نورانی اور شفاف ہوگی اور اسے جنت کے سب سے اعلی باغوں میں قرار دے گا اور رہنے کی بہترین جگہ قرار دے گا جہاں انبیاء و مرسلین کے علاوہ کوئی نہیں رہ سکتا(یا اس کی جگگہ یہ فقرہ ارشاد فرمایا:اس میں کوئی نہیں رہ سکتا سوائے اولوالعزم رسولوں کے)،یہ زمین جنت کے باغوں میں اس طرح چمکے گی جیسے ستاروں میں ایک چکمدار ستارہ نورافشانی کرتا ہے،اس زمین کا نور اہل جنت کی آنکھوں کو چکاچوند کر دے گا اور یہ بلند آواز میں کہے گی: میں وہ مقدس، طیب، پاکیزہ اور بابرکت سرزمین ہوں جس میں سید الشہدا اور جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
جناب جبرائیل کا مصائب پڑھنا اور انبیاء الہی کا گریہ
جب آدم علیہ السلام نے ساق عرش پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کے مقدس نام دیکھے تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور حضرت آدم علیہ السلام کو یہ کلمات کہنے کا حکم دیا تاکہ خداوند عالم کی بارگاہ میں ان کی توبہ قبول ہو جائے): يا حميد بحقّ محمّد، يا عالى بحقّ على، يا فاطر بحقّ فاطمة يا مُحسن بحقّ الحسن و الحسين، و منك الاحسان۔
جب آدم علیہ السلام نے یہ کلمات دہرائےے تو جیسے ہی امام حسین علیہ السلام کا نام ان کی زبان پر جاری ہوا تو ان پر رقت طاری ہوگئی ، دل ٹوٹ گیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، آپ نے فرمایا: اے میرے بھائی جبرائیل! کیا وجہ ہے کہ جب میں حسین علیہ السلام کا ذکر کرتا ہوں تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے اور میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں؟ جبرائیل نے کہا: اے آدم! آپ کے اس فرزند حسین علیہ السلام پر اتنے جان سوز مصائب پڑیں کہ تمام مصیبتیں ان کے سامنے چھوٹی پر جائیں گی، آدم علیہ السلام نے فرمایا: میرے بھائی جبرائیل! وہ مصایب کیا ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: حسین علیہ السلام کو پیاسا،تنہا، عالم غربت میں بےیار و مددگار قتل کیا جائے گا اگر آپ اس دن انہیں دیکھیں تو صدا دے رہے ہوں گے: وا عطشاه! وا قلّة ناصراه! ہائے پیاس ،ہاے یاور و ناصر کی کمی۔
پیاس کی شدت ان کے اور آسمان کے درمیان خلا کو دھوئیں کی مانند کر دے گی، کوئی انہیں جواب نہیں دے گا سوائے تلواروں اور آلات قتل کے، ان کا سر پشت گردن سے جدا کر دیا جائے گا،تمام مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا ،ان کا اور ان کے اصحاب کے سروں کو شہروں میں پھرایا جائے گا نیز ان کے اہل حرم کو سروں کے پاس سے گزارا جائے گا،اس کے بعد جبرائیل اور آدم علیہما السلام اس طرح امام علیہ السلام کے مصایب پر روئے جیسے ایک ماں اپنے بیٹے کی موت پر روتی ہے۔
یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے کی روایت میں ملتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے بجائے ایک دنبہ بھیجا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام غمگین ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا: میں اسمٰعیل کو ذبح کر کے سب سے زیادہ اجر پانے والا بننا چاہتا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا: اے ابراہیم! میری کون سی مخلوق آپ کے نزدین سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے عرض کیا:میرے نظر میں تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ محبوب کوئی مخلوق نہیں بنائی،خداوند عالم نے فرمایا: کیا تم ان سے زیادہ محبت کرتے ہو یا اپنے آپ سے؟ آپ نے عرض کیا: میں یقیناً ان سے اپنے آپ سے زیادہ محبت کرتا ہوں،اللہ نے فرمایا: ان کے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہو یا اپنے بیٹے سے؟ آپ نے عرض کیا: یقیناًان کے بیٹے سے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا ظالمانہ قتل تمہارے دل کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے یا میری اطاعت میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا؟ عرض کیا: پروردگار! یقینا ان کے دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا قتل میرے دل کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے،خدا نے فرمایا: اے ابراہیم! ایک گروہ جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں سے ہیں وہ ان کے بعد ان کے بیٹے حسین کو ظلم اور دشمنی میں قتل کریں گے اور اس طرح میرے غضب کے مستحق ہوں گے، جناب ابراہیم بے تاب ہو گئے ، آپ کے دل کو تکلیف ہوئی اور رونے لگے تو خدا وند متعال نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آنسوؤں اور غم کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بجائے حضرت حسین علیہ السلام کے لیے ان سے خرید کر ان کو مظلوموں کے اعلیٰ درجات تک پہنچا دیا۔
انبیا علیہم السلام کا امام حسین علیہ السلام کے لیے ہمدردی
امام صادق علیہ السلام اسماعیل صادق الود کے بارے میں فرماتے ہیں: اسماعیل، جن کے بارے میں خدا نے قرآن میں فرمایا ہے: وَ اذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِسْماعِيلَ إِنَّهُ كانَ صادِقَ الْوَعْدِ وَ كانَ رَسُولًا نَبِيًّا(اور اپنی کتاب میں اسماعیل علیہ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے ّاور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے)
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نہیں تھے بلکہ وہ انبیاء (اسماعیل بن حزقیل) میں سے ایک نبی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے ایک گروہ کی طرف بھیجا تھا اور (ان جاہلوں نے) ان کو پکڑ کر ان کے سر اور چہرے کی کھال نوچ دی ،خدا وند عالم کی طرف سے ایک فرشتہ ان کے پاس آیا اور کہا کہ خدا نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے ،آپ جو حکم دیں گے بجالاؤں گا،انہوں نے فرمایا: لى اسوةٌ بِما يَصنَعُ بِالحُسَينِ
میں لوگوں کے اس طرز عمل پر حسین علیہ السلام کی پیروی کرں گا،(جس طرح وہ اپنے نانا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کے ظلم پر صبر کریں گے اسی طرح میں بھی اپنی قوم کے ظلم و ستم پر بھی صبر کروں گا)
درحقیقت امام حسین علیہ السلام انبیاء کے لیے اسوہ اور نمونۂ عمل تھے،سب ان کے ساتھ اپنی عقیدت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے قاتلوں اور دشمنوں پر لعنت بھیج کر اور ان سے بیزاری کا اظہار کر کے خداوند عالم کی بارگاہ میں تقرب کے خواہاں تھے ،امام علیہ السلام کی ولادت اور شہادت سے کئی سال پہلے آپ کے مصائب پر گریہ و زاری کرتے تھے،دیکھئے کس طرح اسماعیل صادق الوعد جو خدا کے پیغمبروں میں سے تھے، نے کس طرح حضرت سید الشہداء علیہ السلام کو اپنے مصائب میں اپنا رہبر اور مرشد بنایا اور مصائب و آلام کو برداشت کرکے حضرت امام حسین علیہ السلام سے ہمدردی کی۔
ملائکہ امام حسین علیہ السلام کےعزادار
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: وَكَّلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِقَبْرِ الْحُسَيْنِ أَرْبَعَةَ آلَافِ مَلَكٍ شُعْثاً غُبْراً يَبْكُونَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة
خداوند عالم نے چار ہزار فرشتوں کو مقرر کیا ہے جو غم زدہ حالت میں امام حسین علیہ السلام کے روضے پر قیامت تک روتے رہیں گے۔
فضل بن یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کربلا کی زیارت کرو اور اسے نہ چھوڑو، اس سرزمین میں انبیاء کی بہترین اولاد ہے، أَلَا وَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ زَارَتْ كَرْبَلَاءَ أَلْفَ عَامٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَسْكُنَهُ جَدِّيَ الْحُسَيْنُ وَ مَا مِنْ لَيْلَةٍ تَمْضِي إِلَّا وَ جَبْرَائِيلُ وَ مِيكَائِيلُ يَزُورَانِهِ
آگاہ ہو جاؤ کہ میرے جد حسین علیہ السلام کے کربلا میں آنے سے ایک ہزار سال پہلے فرشتے کربلا کی زیارت کرتے تھے، اور کوئی رات ایسی نہیں گزرتی کہ جبرائیل اور میکائیل اس مقام کی زیارت کو نہ آتے ہوں، تو اے یحییٰ کوشش کرو کہ یہ جگہ تمہارے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔
کیونکہ فرشتے کربلا کی حقیقت اور عاشورہ کے مصائب سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے وہ خوب جانتے ہیں کہ عظیم ترین شعائر الہی، واقعہ کربلا، عاشورہ کی حقیقت اور حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقدس وجود ہے چنانچہ وہ اس عظیم واقعہ کے احترام میں اس کے وقوع پذیر ہونے سے ایک ہزار سال پہلے وہاں کی زیارت کرنے آتے تھے، ہر رات فرشتے، جبرائیل اور میکائیل کو امام علیہ السلام کی خدمت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی عزا میں اہل بیت علہیم السلام کا گریہ
اس سلسلے میں اتنی روایات ہیں انہیں لکھنے کے لیے ایک مکمل کتاب کی تصنیف کی ضرورت ہے ہم ان میں سے صرف چند روایات کو بطور مثال ذکر کریں گے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: جب بھی امام حسین بن علی علیہما السلام پیغمراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے لپٹ جاتے اور پھر امیر المومنین علیہ السلام سے فرماتے:اس کا خیال رکھنا،اس کے آپو بوسہ دیتے اور رونے لگتے تھے: امام علیہ السلام پوچھتے تھے:نانا جان آپ کیوں رو رہے ہیں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: میرے بیٹے میں نے تلواروں کی جگہ بوسہ دے کر رو رہا ہوں، امام علیہ السلام پوچھتے تھے: نانا جان کیا مجھے قتل کر دیا جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ہاں، خدا کی قسم، تم، تمہارا باپ اور تمہارا بھائی سب قتل کیے جائیں گے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: امیر المومنین علی علیہ السلام لوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ شہر سے نکلے یہاں تک کہ کربلا کے ایک یا دو میل دور شہداء کے گرنے کے مقام پر پہنچے تو آپ نے فرمایا:اس جگہ دو سو نببیوں، دو سو نبیوں کے وصیوں اور دو سو نبیوں کے نواسوں کی روحیں قبض ہوئی ہیں جو سب کے سب شہید ہیں، اس کے بعد آپ نے اپنے قدم مبارک کو رکاب سے باہر نکالا اور خچر پر سوار اس جگہ کا طواف کیا،طواف کرتے ہوئے فرماتے جاتے تھے:سواریوں کے بٹھانے کی جگہ، شہداء کے گرنے کی جگہ ،ان سے پہلے کے شہداء (فضیلت میں) ان سے آگے نہیں نکلے اور جو ان کے بعد آئیں گے وہ بھی ان میں شامل نہیں ہوں گے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ: جب امیر المومنین علیہ السلام اپنے اصحاب کے ایک گروہ کے درمیان کربلا سے گزرے تو ان کی مبارک آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور گریہ کرنے لگے، پھر فرمایا : یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کی سواریاں رکیں گی ،یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنا سامان اتاریں گے اور یہاں ان کا خون بہایا جائے گا، پھر آپ نے زمین سے مخاطب ہو کر کہا: مبارک ہو اے زمین کہ تجھ پر اللہ کے ولیوں کا خون بہایا جائے گا۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ: امام سجاد علیہ السلام چالیس سال تک اپنے والد کے مصائب پر روتے رہے ،آپ دن میں روزہ رکھتے تھے اور آپ کی راتیں عبادت میں بسر ہوتی تھیں،جب بھی افطار کا وقت ہوتا تو غلام آپ کے لیے پانی اور کھانا لاتا اور آپ کے پاس رکھ کر کہتا: اے میرے آقا نوش فرمائیے،امام سجاد علیہ السلام فرماتے تھے: فرزند رسول خدا کو بھوکا شہید کر دیا گیا، فرزند رسول خدا کو پیاسا شہید کر دیا گیا،آپ یہی جلے دہراتے رہتے اور اتنا روتے کہ کھانا آپ کے آنسوؤں سے تر ہو جاتا یہاں تک کہ پینے کے پانی میں بھی آنسو مل جاتے، آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ اپنے معبود سے جا ملے۔
حضرت رضا علیہ السلام نے فرمایا: بے شک محرم وہ مہینہ ہے جس میں زمانۂ جاہلیت کے لوگ بھی جنگ کو حرام سمجھتے تھے لیکن اس مہینے میں ہمارے خون کو حلال قرار دیا گیا، ہماری حرمت کو پامال کیا گیا اور ہمارے بچوں اور عورتوں کو اسیر کیا گیا، ہمارے خیام کو جلا دیا گیا اور جو کچھ مال واسباب ان میں تھا لوٹ لیا گیا ،ہمارے معاملے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت بھی باقی نہیں رکھی گئی،بے شک یوم حسین نے ہماری پلکوں کو زخمی کر دیا ہے اور ہمارے آنسو بہائے ہیں اور ہمارے پیاروں کو رنج و غم کی وادی میں لا کھڑا کیا ہے اور ہمارے لیے قیامت تک رنج و غم میراث میں چھوڑا ہے پس حسین پر گریہ کرو اس لیے کہ ان پر گریہ کرنے بڑے بڑے گناہ مٹ جاتے ہیں،پھر آپ نے فرمایا: جب بھی محرم کا مہینہ آتا، کوئی میرے والد کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھتا تھا، ان کا غم مسلسل بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عاشورہ کا دن آ جاتا جو ان کے دکھ، غم اور رونے کا دن تھا، وہ فرماتے تھے: یہ وہ دن ہے جس دن حسین علیہ السلام شہید ہوئے۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور مصائب پر تمام مخلوق کا گریہ کرنا۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: حسین کوفہ کے پیچھے قتل کیا جائیں گے، خدا کی قسم، میں دیکھ رہا ہوں کہ درندے ان کی قبر پر گردنیں پھیر کر گریہ و زاری کر رہے ہیں اور شام سے صبح تک ان پر مرثیہ پڑھ رہے ہیں،جب حیوانوں کا یہ حال ہے تو تم انسانوں کو ان پر ظلم کرنے سے بچنا چاہیے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب حضرت حسین بن علی علیہما السلام شہید ہوئے تو ساتوں آسمان ، زمین کے ساتوں طبقے اور جو کچھ ان کے درمیان تھا نیز زمین پر موجود تمام مخلوقات اور جاندار ، جنت اور جہنم اور آخر کار وہ تمام چیزیں جو ہمارے رب نے پیدا کیں ، ظاہر اور پوشیدہ مخلوقات سب نے ان پر گریہ کیا۔
امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: بَكَتِ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ وَ الطَّيْرُ وَ الْوَحْشُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع حَتَّى ذَرَفَتْ دُمُوعُهَا
انسان، جن، پرندے اور حیوان حسین بن علی علیہ السلام پر روتے رہے یہاں تک کہ ان کے آنسو بہنے لگے۔
شعائر حسینی کی تعظیم کا ضروری ہونا
یہ جاننے کے بعد کہ خداتعالیٰ کی طرف سے خود انبیاء علیہم السلام اور اہل بیت علیہم السلام نیز تمام مخلوقات امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کی عزاداری کی تعظیم اور احترام کرتے ہیں،قرآن مجید نے شعائر کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر شعائر حسینی کے احترام میں کمی کریں گے تو جو مصیبت غدیر کے عظیم واقعہ سے امت اسلامیہ پر پڑی وہی عاشورہ کے تاریخی واقعہ پر بھی آئے گی،اگر غدیر کے بعد پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم اور اہم دن کی تعظیم و تکریم میں کوتاہی نہ کرتے اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی طرح اس کی بھی قدر و تعظیم کرتے تو عالم اسلام کا یہ حال نہ ہوتا کہ بعض مخالفین اصل واقعہ غدیر کا انکار کرنے کی ہمت کرتے یا اس سلسلہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک الفاظ میں تحریف کرتے لہذا ہمیں شعائر حسینی کی تعظیم کرنا چاہیے لیکن اس میں بھی نیت کی پاکیزگی شرط ہے اس لیے کہ امام علیہ السلام کی عزادری اور خلوص نیت ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں، ہم خدا تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں امام حسین علیہ السلام کے حقیقی عزاداروں میں شامل فرمائے، ان شاء اللہ۔