اصلی وطن اور وطن دوّم کسے کہتے ہیں اور اس میں نماز روزہ کا کیا حکم ہے؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
جواب
سلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
وطن اصلی سے مراد کسی شخص کی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہوئی ہے اوراس کے گھرکے لوگ وہاں رہتے ہیں یاوہاں سَکُونت اختیارکرلی ہے اوریہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔
وطن دوّم سےمراد انسان کےمختلف شہروں میں گھرکا ہونا جہاں وہ سال کا کچھ حصہ گزارے مثلا اگر تین یا چار مہینے انسان، وطن دوّم میں رہے تو وہاں اس کی نماز کامل ہوگی اور اگر ماہ رمضان ہو تو وہاں روزہ بھی رکھے گا لیکن امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ہے کہ انسان وہاں چھ مہینے رہے تاکہ اس کا وطن دوّم حساب ہو۔
تمام مراجع تقلید فرماتے ہیں کہ دو سے زیادہ انسان کےوطن ہو سکتے ہیں لیکن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور آیت اللہ شبیری زنجانی دامت برکاتہ نے فرمایا ہے کہ دو سے زیادہ وطن نہیں ہو سکتے ہیں۔
دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای دامت برکاتہ فرماتے ہیں کہ وطن دوّم میں تین، چار ماہ سکونت مسلسل ہونی چاہیے مثلا جنوری سے اپریل تک وہاں مسلسل رہے اور اس کا ارادہ ہو کہ وہ آخر عمر تک اس طرح کرے گا یعنی ہر سال تین، چار مہینے یا اس سے زیادہ وہ وہاں آ کر رہے گا تو اس صورت میں وہ اس کا وطن دوم شمار ہوگا۔
دیگر مراجع تقلید جیسے آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ سید علی سیستانی دامت برکاتھما فرماتے ہیں کہ تین، چار مہینےمسلسل رہنا ضروری نہیں ہے اگر انسان مختلف مواقع میں وہاں جا کر رہے کہ جس کی کل تعداد تین یا چار مہینے بنتی ہو تو اس صورت میں بھی وہاں پر اس کی نماز کامل اور روزہ صحیح ہوگا۔ اگرچہ وہاں ایک دن کے لئے ہی کیوں نہ جائے تووہ نماز پوری پڑھے گا اور اگر ماہ رمضان ہو تو روزہ بھی رکھے گا۔
اس سلسلے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ بعض جگہیں نہ وطن اصلی ہوتی ہیں اور نہ وطن دوّم بلکہ انسان کی عارضی اقامت گاہ ہوتی ہیں۔ مثلا ایک شخص جو کسی شہر میں ملازمت کرتا ہے یا ایک عالم دین جوکسی شہر میں امام جمعہ ہے ۔اور وہاں کچھ عرصہ رہتا ہے۔
عارضی اقامت گاہ کے بارےمیں تمام مراجع تقلید کا اتفاق ہےکہ اگروہاں انسان کو ڈیڑھ یا دو سال سے زیادہ رہنا ہو تو اسے "وطن حکمی” کہا جائے گا (یعنی وہ جگہ حقیقی وطن نہیں ہے بلکہ وطن کے حکم میں ہے) تو وہاں پر نماز کامل اور روزہ صحیح ہے۔ اگرچہ وہاں دس دن رہنے کا قصد بھی نہ ہو لیکن جب بھی انسان اس جگہ کو ترک کرکےدوسری جگہ چلا جائے تو وہ جگہ اس کی وطن نہیں ہوگی اور اب جب بھی وہ وہاں جائےگا تو وہاں اس کی نماز قصر ہو گی اور روزہ رکھنا صحیح نہیں ہو گا۔