امام زمانہ ع کے خون کے آنسوں رونے کا کیا مطلب ہے؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام علیکم و رحمۃ اللہ
حضرت امام زمان عجل الله تعالی فرجہ الشریف حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت ناحیہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’فَلاَندُبَنَّک صَباحاًوَمسآءًوَلَأَبکِیَنَّ بَدَلَ الدُّموعِ دَماً‘‘
اے میرے آقا !خدا کی قسم؛میں دن رات آپ کی مظلومیت و مصیبت پر عزاداری کرتا اور آنسوؤں کے بدلے خون روتا ہوں۔
بحار الانوار،ج۱۰۱،ص۳۲۰
محققین کا کہنا ہے کہ انسان کی آنکھوں کے پیچھے خون کے تھیلے ہوتے ہیں جب انسان کے غم و حزن سے متأثر ہوتا ہے تو ان تھیلیوں کا خون پانی میں تبدیل ہو کر آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں جاری ہو جاتا ہے اور اگر رونے کا یہ عمل غم کی شدت کی وجہ سےطویل اور شدید ہو جائے تو خون کو پانی میں تبدیل کرنے کا عمل مختل ہو جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون بہنے لگتا ہے۔
بحار الانوار ،ج۴۴،ص۲۹۳
شاید حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں آپ کی مظلومیت اور مصیبت میں اس قدر عزاداری کرتا ہوں کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوتے بلکہ خون جاری ہوتا ہے اور کسی خاص وقت یہ عزاداری نہیں کرتا بلکہ پورا سال دن رات اپنے جد کی مظلومیت پر خون کے آنسو بہاتا ہوں۔
روایات میں ہے کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے دنیا والوں کو مخاطب قرار دے کر جو فریاد بلند کریں گے ان میں سے تین جملے حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے متعلق ہیں: ’’أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الامامُ القائمُ الثانی عَشَرَ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الصّمْضامُ المُنْتَقِم ،أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن قَتَلوهُ عَطْشاناً، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن طَرَحوهُ عُریاناً، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن سَحَقوهُ عُدواناً ‘‘
اے دنیا والوں! میں بارہ واں امام قائم ہوں ، میں انتقام کی تیز تلوار ہوں، میرے جد امجد حسین کو پیاسا شہید کردیا گیا، میرے جد امجد حسین کے مطہر جسم کو بے کفن خاک کربلا پر چھوڑ دیا گیا، میرے جد امجد حسین کے پاک و مطہر بدن کو دشمنی کی خاطر گھوڑوں کے سموں تلے پامال کردیا گیا۔
سید ابن طاؤس،لہوف،ص۱۱