امر بین الامرین کا کیا مطلب ہے ؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
امر بین الامرین کا کیا مطلب ہے کیااہلبیت کا راستہ جداہے یا دونوں راستوں کے بیچ میں ہے یعنی دونوں کابیچ کا راستہ ہے؟؟
جواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام علیکم ورحمۃ اللہ
امر بین الامرَین، علم کلام کی ایک اصطلاح ہے جو جبر اور اختیار کے مسئلے میں شیعہ مذہب کے مخصوص اعتقادات میں سے ہے۔ یہ عقیدہ جبر اور تفویض کے نظریے کے مقابلے میں انسان کے اختیاری افعال میں خدا اور انسان دونوں کے ارادے کو دخیل سمجھتا ہے۔ اس بنا پر انسان نہ اس قدر مجبور ہے کہ اپنے ارادے سے کوئی کام انجام نہ دے سکتا ہو اور نہ مکمل آزاد ہے کہ اس کے افعال میں خدا کا ارادہ کوئی دخالت نہ رکھتا ہو۔
نکتہ آغاز
جبر اور اختیار کا مسئلہ انسانی تاریخ میں تمام ادیان و مذاہب میں مورد بحث و گفتگو قرار پایا ہے۔ [1] یہ مسئلہ صرف نظریاتی ہی نہیں بلکہ عملی پہلو بھی رکھتا ہے [2] اور سماجی آزادی اور عدل الہی جیسے موضوعات کے ساتھ بھی ارتباط رکھتا ہے۔[۳]
الامر بین الامرین کی اصطلاح کو پہلی مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) نے پیش فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی شخص نے قضا و قدر کے بارے میں امام علیہ السلام سے سوال کیا تو امام علیہ السلام نے اسے اس بحث کو چھیڑنے سے منع کیا لیکن اس نے اصرار کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اب جبکہ تم اپنے بات پر مصر ہو تو سنو قضا و قدر کے حوالے سے نہ جبر درست ہے اور نہ تفویض؛ بلکہ حقیقت میں ان دونوں کا درمیانی امر صحیح ہے۔[۴]
اس مسئلے کے بارے میں بقیہ ائمہ بطور خاص امام صادق(ع) اور امام رضا(ع) سے بھی بہیت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح امام ہادی (ع) سے اس مسئلے کی توضیح میں کتابچہ کی صورت میں ایک مفصل تحریر موجود ہے۔[۵]
توضیح
اس اصطلاح میں "امرین” سے مراد جبر اور تفویض ہے۔ جبر کے نظریے کے مطابق انسان کا اراده اپنے افعال میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ہے اور اس کے افعال مہر شدہ اور اس کے اختیار سے باہر ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تفویض کے نظریے کے مطابق انسان کا ارادہ اپنے افعال میں ہر حوالے سے مؤثر ہے اور خدا کا ارادہ اس میں کوئی دخالت نہیں رکھتا۔ خدا نے انسان اور اس کی قدرت کو خلق کیا اور اسکے بعد بعد انسان کے تمام کاموں کو خود انسان کے اوپر موکول فرمایا ہے اب اس حوالے سے خدا کا کوئی کردار نہیں ہے۔”امر بین الأمرین” کا نظریہ ان دونوں نظریوں کو باطل سمجھتا ہے اور انسان کے اختیاری افعال میں خدا اور انسان دونوں کے اردے کو ایک دوسرے کے طول میں مؤثر سمجھتا ہے جو حقیقت میں انسان کا اپنے کاموں میں مختار ہونا ہے۔
شیعہ متکلمین اور فلاسفہ اس نظریے کے قائل ہیں۔ [6]. دوسرے مکاتب فکر میں سے ماتریدیہ اگرچہ انسان کے اختیاری افعال میں نظریہ کسب کے قائل ہیں لیکن وہ "کسب” کی ایسی تعریف کرتے ہیں جو مسئلہ امر بین الامرین میں اہل تشیع کے نظریے کے ساتھ سازگار ہے۔ [۷]
طحاویہ جو ابو جعفر مصری طحاوی (۲۲۹ـ۳۲۱ق) کے پیروکار ہیں اس مسئلے میں اہل تشیع کے موافق ہیں۔ [۸]
اشاعره کے بعض متکلمین بھی امر بین الامرین کی اصطلاح کو استعمال کئے بغیر اس نظریے کو قبول کرتے ہیں۔ جیسے شمسالدین محمود اصفہانی [9]، عبدالوہاب شعرانی[10]، عبدالعظیم زرقانی[11]، شیخ محمد عبدہ[12] اور شیخ محمود شلتوت[13].
امر بین الامرین کے نظریے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکلف جانتا ہے اور اپنے کاموں کی مسئولیت کو خود قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اس نظریے کے مطابق انسان اپنے کام میں مختار ہے۔ جبکہ جبر کے نظریہ کا لازمہ انسان کا مکلف نہ ہونا اور اپنے کاموں کی مسئولیت کو قبول نہ کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ بے قید و بند ہونا ہے۔ عام طور پر ایسے افراد جبر کے نظریے کا سہارا لیتے ہیں جو اس کے ذریعے کسی ذمہ داری کو قبول کرنے یا کسی قانون یا اخلاقی اقدار کے پابند ہونے سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اور اپنے آپ سے سرزد ہونے والے برے کاموں کی توجیہ اور واجبات سے اپنا دامن جھاڑنے کیلئے کسی بہانے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔[14] چنانچہ بنی امیہ کے حکمران اپنے ڈھائے جانے والے مظالم پر پردہ ڈالنے کی خاطر جبرگرایی کا سہارا لیتے تھے وہ کہتے تھے کہ فلاں شخص اتنا غریب ہے اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ خدا نے اسکے مقدر میں غریبی لکھی ہے ۔[1۵]
حوالہ جات:
۱۔ جعفری، جبر و اختیار، ص ۱۳.
۲۔ طباطبایی، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، ج۳، ص۱۵۱، پاورقی.
۳۔ مطہری، عدل الہی، ص۱۱.
۴۔ مجلسی، بحارالانوار، ج ۵، ص ۵۷.
۵۔ طبرسی، الاحتجاج، احتجاجات الإمام علی الہادی(ع)، ص ۴۵۰ـ۴۵۳.
۶۔ ملاصدرا، الحکمۃ المتعالیہ، ج ۶، ص ۳۷۱؛ فیاض لاہیجی، گوہر مراد، ص۳۲۷؛ طباطبایی، المیزان، ج ۱، ص ۲۴.
۷۔ ر.ک: ماتریدی، کتاب التوحید، ص ۲۲۵ـ۲۲۶؛ ربانی، الکلام المقارن ، ص ۲۱۷ـ۲۲۰.
۸۔ طحاوی، العقیدۃ الطحاویہ، ص ۶۷؛ ربانی، الکلام المقار، ص ۲۲۰ـ۲۲۱.
۹۔ اصفہانی، تسدید القواعد فی شرح تجرید العقائد
۱۰۔ شعرانی، الیواقیت والجواہر، ج ۱، ص ۱۴۰.
۱۱۔ سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ص ۱۱۱ـ۱۱۲، بہ نقل از: مناہل العرفان، ج ۱، ص ۵۰۶
۱۲۔ عبدہ، رسالۃ التوحید، ص ۱۱۹
۱۳۔ سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ص ۱۱۲، بہ نقل از: تفسیر القرآن الکریم، ص ۲۴۰ـ۲۴۲.
۱۴۔ طباطبایی، اصول فلسفه و روش رئالیسم، ج۳، ص۱۷۱.
۱۵۔ دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۷، ص۵۲۲ـ۵۲۴.