خمس واجب ہونے کی دلیل کیاہے؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
جواب
سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام فقہائے اسلام معتقد ہیں کہ جنگی غنائم جہاد کرنے والوں میں تقسیم ہوتے ہیں،لیکن اس کا پانچواں حصّہ {خمس} خاص موارد میں مصرف ہونا چاہیئے۔قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے۔
واعلموا أنما غنمتم من شيء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل۔۔۔{انفال:۴۱}
اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصّہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسا کین اور مسافروں کے لئے ہے۔
شیعہ فقہاء اور دیگر فقہاء کے درمیان جو فرق ہےوہ یہ ہے کہ دیگر فقہاء نےخمس کو جنگی غنیمت تک ہی محدود جانا ہےاس کے علاوہ اس فریضہ کے قا ئل نہیں ہیں۔اور ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت غنائم جنگی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
لیکن یہ مطلب درج ذیل دو نکتہ نظر سے صحیح نہیں ہے:
۱۔لغت عربی میں جو چیز انسان کے ہاتھ آئے اسے غنیمت کہا جاتا ہے۔اور یہ غنیمت جنگی سے مخصوص نہیں ہے۔چنانچہ ابن منظور کہتے ہیں:
الغنم الفوذ با لشئی من غیر مشقۃ{۱}
"غنیمت کسی چیز کامحنت ومشقت کےبغیر ہاتھ آنا”
اس کے علاوہ قرآن مجید نے بھی اسے جنت کی نعمتوں میں استعمال کیا ہےاور فرماتا ہے:
"فعند اللہ مغانم کثیرۃ”نساء :۹۴
"اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں۔”
اصولا”غنیمت”،”تاوان ” کے مقابلےمیں ہے۔اگر انسان کو کسی نفع اور فائدے کے بغیرکوئی رقم ادا کرنے پر مجبورکیا جائے تو اسے "تاوان”کہتے ہیں۔اسی طرح اگرکوئی نفع اس کے ہاتھ آئےتو اسے”غنیمت” کہتے ہیں۔
اس لئےاس آیت کو غنائم جنگی سے مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہےاور اس آیت کا”جنگ بدر”کے غنائم کے سلسلے میں نازل ہونا جنگ سے اختصاص کی دلیل نہیں بنتاہے۔اور تمام آمدنی میں خمس کا قانون ایک کلی قانون ہےاور نازل شدہ آیت کیلئے مخصص نہیں ہے۔
۲۔بعض روایات میں آیا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر قسم کی آمدنی پر خمس اداکرنا واجب قرار دیا ہے۔اس کے بعد قبیلہ عبد القیس میں سے ایک جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سوال کیا:ہمارے اور آپ کے درمیان میں دشمن حائل ہیں اور ہم صرف حرام مہینوں میں{جب امنیت برقرار ہے}آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور آسکتے ہیں۔ مہر بانی کرکےایسے احکام بیان فرمائیےکہ ان پر عمل کرکےہم بہشت میں داخل ہوں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم لوگوں کو ایمان کی تلقین کرتا ہوں ۔”
پھر ایمان کی تفسیر میں فرمایا:
"شھادۃ ان لاالہ الا اللہ ،واقامۃ الصلاۃ ،و ایتاء الزکاۃ،وتعطواالخمس من المغنم”{۲}
"خدا کی وحدانیت پر شہادت،نماز قائم کرنا،زکوٰۃ ادا کرنا،اور اپنی آمدنی کی پانچواں حصّہ{خمس}ادا کرنا۔”
یقینا اس حدیث میں "غنیمت”غیر جنگی آمدنی ہے۔چونکہ سائل کہتا ہے:”ہم ایسے مقام پر ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی نہیں رکھتے،یعنی مشرکین کے ڈر سے مدینہ نہیں آسکتے۔”ایسے افراد جو مشرکین کے محاصرے میں تھے،مشرکین سے جہاد کی طاقت نہیں رکھتے تھے،خمس ادا کرتے تھے۔
اس کے علاوہ ہر قسم کی آمدنی سے خمس کی ادائیگی کے واجب ہونے کے سلسلے میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی روایتوں میں صراحت ہوئی ہے ۔اورکسی قسم کا ابہام باقی نہیں ہے۔{۳}
فقہ سے مربوط یہ چند فروعی مسائل ہیں کہ شیعہ ان کے سلسلے میں خاص نظریہ رکھتے ہیں۔البتہ شیعوں کے دوسرے فروعی مسائل میں اختلاف انہی مذکورہ چند مسائل تک محدود نہیں ہیں۔بلکہ”خمس” ،”وصیت”،”ارث”کے ابواب میں بھی شیعہ اختلاف نظر رکھتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود شیعوں کا دوسرے کے ساتھ احکام کے کلیات میں اشتراک،تطبیقی صورت میں فقہ کی تدریس،خاص طور پر خاندان وحی کے مستدل آراء کی طرف خصوصی توجہ جیسے امور شیعہ ،سنی کے درمیان اختلاف کے فاصلہ کم کر سکتے ہیں۔
۱۔لسان العرب ، کلمہ غنم،اس معنی کے نزدیک ہے۔کلام ابن اثیر النہایہ میں اور کلام فیروزآبادی قاموس اللغۃ میں۔
۲۔صحیح بخاری،ج۲،ص۲۵۰
۳۔وسائل الشیعہ ، جلد ۶،کتاب خمس،باب اول