شفاعت کافلسفہ کیا ہے؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. جواب
    سلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
    شفاعت نہ تو گناہ کی ترغیب ہے ،نہ گناہگاروں کیلئےہری جھنڈی ،نہ ہی پسماندگی کا سبب،اور نہ ہی آج کے معاشرےمیں جشن منانے جیسی کوئی چیزہے،بلکہ شفاعت ایک اہم تربیتی مسئلہ ہے جو مختلف اعتبارسےمثبت آثار کا حامل اور زندگی ساز

    اورمندرجہ ذیل قیمتی اثرات پر مشتمل ہے:

    ۱-امید پیدا کرنا اور مایوسی کے جذبے سے لڑنا ؛

    اکثر ایسا ہوتا ہے خواہشات نفس کا غلبہ اہم گناہوں کے ارتکاب کا باعث بنتا ہےاور پھر مایوسی کا جذبہ ان گناہوں کےارتکاب پر غالب آجاتا ہے۔بالکل اس بیما رکی طرح جو تندرستی سے مایوس ہوکر ہر چیز کی بندشوں سے بے پرواہ ہوجائے چونکہ اب وہ ہر چیزکوبے دلیل اور بے اثر سمجھتا ہے۔

    لیکن اولیاء اللہ کی شفاعت کی امید انھیں یہ پیغام دیتی ہےاگروہ یہیں{دنیامیں} اپنے کوگناہوں سے روک لیں اور اپنی اصلاح کرلیں تونیک اور پاکیزہ لوگوں کی شفاعت سے ان کے ماضی کی تلافی ہوسکتی ہے۔اس لئے شفاعت کی امید گناہوں کو روکنے اور نیکی اور تقوی کی طرف لوٹنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    ۲۔اولیاء کے ساتھ روحانی تعلق قائم کرنا؛

    شفاعت کے لئےضروری ہےکہ، شفاعت کرنے والوں اور شفاعت کئےجانے والوں کے درمیان ایک قسم کا روحانی تعلق ہو جس سے وہ شفاعت کی توقع رکھتا ہے۔ اور یہ تعلق درحقیقت شفاعت کرنے والے کی تربیت کا ایک ذریعہ بنے گا جو اسے "شفاعت کرنے والے” کے افکار و افعال سے قریب کرئے گا ۔
    مختلف روایتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے دوستی اور محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔۱

    شرائط شفاعت:

    قیامت کے دن گنہگاروں کیلئے اولیاء الہی کی شفاعت بغیر حساب و کتاب کے نہیں ہوگی، بلکہ شفاعت کیلئے کچھ شرائط ہیں جن کا اسی دنیا میں حاصل کرنا ضروری ہے۔

    ۱۔خدا وندعالم کی رضاحاصل کرنا:

    ایسا کام انجام دے جو خدا کو مطلوب ہو اور ان چیزوں کو ترک کردےجو شفاعت سے محرومیت کا باعث بنتی ہیں۔ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
    "ولا یشفعون الا لمن ارتضی "۲
    ترجمہ:کوئی شفاعت نہیں کر سکتا ہے مگر یہ کہ خدا اس سے راضی ہو۔

    ۲۔:ایمان کی حفاظت:

    جو لوگ باایمان نہیں ہیں یا صحیح عقیدہ نہیں رکھتےہیں شفاعت ان کو شامل حا ل نہیں ہوگی۔ اسی وجہ سے منابع دینی میں ذکر ہوا ہے کہ قیامت کے دن کافر ، مشرک اور منافق شفاعت کے لائق نہیں ہونگے۔ اس سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:شفاعت منکروں، مشرکوں ،اور کافروں کیلئے نہیں ہے بلکہ شفاعت مومنین کیلئے ہے۔۳

    ب:احکام دینی پر عمل:

    دین الہی میں شفاعت کی شرط یہ ہے کہ دین کے احکام پر عمل کرے ۔جس نے بھی دین کے احکام پر عمل کیا ہے اور خدا ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم لسلام کی پیروی کی ہے لیکن پھر بھی اس سے گناہ اور غلطی سرزد ہوئی ہے ،تو ایسے لوگ آخرت میں رحمت الہی کو پانے کے حقدار ہونگے۔

    احکام دینی اور وظائف دینی پر عمل کرنا اس حد تک اہمیت رکھتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسے ہلکا سمجھے اور اہمیت نہ دے تو یہ اس کی شفاعت سے محرومیت کا سبب بنے گا۔
    امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: ہماری شفاعت اس شخص کو نہیں پہنچ سکتی ہے جو نماز کو ہلکا سمجھتا ہے۔ ۴

    ۴:ظالم نہ ہو:

    "و ما للظالمین من حمیم ولا شفیع یطاع”۵

    کیوں کہ ظالموں کیلئے کوئی مہربان دوست یا کوئی شفاعت فائدہ نہیں دے گی۔

    اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے:میری شفاعت ان گنہگاروں کیلئے ہے جنہوں نے شرک اور ظلم جیسا گناہ نہیں کیا ہے۔۶

    اس کامطلب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت مشرک اور ظالم کے شامل حال نہیں ہوگی۔

    شفاعت سے محروم کرنے والی چیزیں:
    ۱۔ اہل بیت علیہم السلام سے عداوت ودشمنی۔
    ۲۔ اولاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت پہنچانا ۔
    ۳۔ دنیا میں شفیع سے اپنا رابطہ توڑ نا۔جنھوں نے دنیا میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو قبول نہیں کیا ، وہ لوگ ان کی شفاعت کے حقدار نہیں ہونگے۔۷
    ۴۔ شفاعت کا انکار کرنا ۔

    رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے:میری شفاعت قیامت کے دن یقینی ہے جس نے بھی اس کا انکار کیا وہ میری شفاعت سے محروم رہے گا۔۸
    ۵۔قیامت کاانکار کرنا۔۹

    یہ تمام چیزیں سبب بنتی ہیں کہ وہ انسان جو شفاعت کا خواہاں ہے اپنے اعمال میں نظر ثانی کرے ،اپنے اندر کے اعمال میں سدھار لائے لہذا شفاعت، زندگی ساز اور مثبت آثار کا حامل ہے اور ایک اہم ترین تربیتی مسئلہ ہے۔

    حوالہ:

    ۱۔بحار الانوار : ج۲۷ ،ص ۱۵۸،ح۳۔ کنز العمال: ج۱۴،ص۳۹۹،ح۳۹۰۵۷۔

    ۲۔سورہ انبیاء: آیۃ ۲۸۔

    ۳۔میزان الحکمہ: ج۴،ص ۱۴۷۲ ،ح۹۴۸۵ ۔

    ۴۔میزان الحکمہ :ج۴ ، ص۱۴۷۲

    ۵۔سورہ غافر:آیہ۱۸

    ۶۔میزان الحکمہ:ج۴ ،ص۱۴۷۲ ،ح۹۴۸۴

    ۷۔بحار الانوار:ج۸، ص ۷۳۶،ح۹۔

    ۸۔میزان الحکمہ:ج۴ ،ص۱۴۷۲ ، ح۹۴۸۷ ۔ کنز العمال ج۱۴ ،ص۳۹۹، ح۳۹۰۵۹۔

    ۹۔ میزان الحکمہ:ج۴ ،ص۱۴۷۲ ، ح۹۴۸۶

جواب دیں۔

براؤز کریں۔