قمہ زنی اور علنی لعن کا کیا حکم ہے؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام علیکم و رحمۃ اللہ
قمہ زنی کا حکم
قمہ کا ماتم عرف عقلاء کے مطابق غم منانے کے طریقوں میں شمار نہیں کیا جاتا اور ائمہ علیہم السلام اور انکے بعد کے زمانہ میں بھی اسکا ثبوت نہیں ملتا۔ اسکے علاوہ ائمہ علیہم السلام سے اسکی خصوصی یا عمومی طور پر تایید بھی نہیں ملتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں یہ مذہب کی توہین کا سب ہے لہذا کسی بھی طرح ( چھپ کر یا اعلانیہ) جائز نہیں ہے۔
عزاداری کے بارے میں آیہ اللہ خامنہ ای مد ظلہ کے جوابات۔ جواب نمبر ۱۴۶۱
http://farsi.khamenei
علنی لعن کا حکم
یہ بات درست ہے کہ تبرّا کے بغیر ایمان مکمّل نہیں، ایک مسلمان کا کلمہ تبرّا سے ہی شروع ہوتا ہے۔ "لا الہ” کہہ کر تمام باطل خداؤں کی نفی کی جائے اور پھر "الاّ اللہ” کہہ کر اللہ کا اقرار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جھوٹے انبیاء سے بیزاری اختیار کرنا لازم ہے تب جا کر اصل انبیاء کا اقرار ہوتا ہے، اسی طرح جھوٹے خلفاء کا بھی انکار ضروری ہے تب جا کر حقیقی خلفاء (آئمہ معصومین) کا اقرار فائدہ دیتا ہے۔ تبرّا کا مطلب جھوٹے خداؤں، جھوٹے انبیاء، جھوٹے خلفاء سے انکار ہے ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھلم کھلا لعن طعن کیا جائے یا خدا نخواستہ گالم گلوچ سے کام لیا جائے۔
اللہ نے قرآن میں باطل خداؤں کا نام لے کر برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نام لے کر گالم گلوچ یا توہین تبرّا نہیں کہلایا جاتا بلکہ یہ سب تبرّا کے حقیقی معنی کو درک نہ کرنے کا نتیجہ ہے اور اس سے ہمارے مذہب کی ترقی پر بھی حرف آتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں جہاں شیعوں کا کشت و خون ہو رہا ہے اور ہم ایک خاص گروہ کو تمام الزامات دے کر خود کو تسلّی دیتے ہیں، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس کشتار میں ہماری اپنی حرکتیں بھی شامل ہیں؟ کیا ہم نے خود احتسابی کی کہ ہم کہاں تعلیمات آل محمد(ص) سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے شیعہ بھائیوں کو قتل کئے جانے کا موجب بنتے ہیں، ہم کتنی شیعہ ماوؤں کو ان کے بیٹوں سے محروم کرتے ہیں، ہم کتنی شیعہ بہنوں کا سہاگ اجاڑ دیتے ہیں اور ہم کتنے شیعہ بچوں کے سروں سے والدین کا سایہ چھین لیتے ہیں۔
کاش ہم نے کبھی یہ سب سوچا ہوتا تو ہم آج علم اور عمل کے میدان میں سب سے آگے ہوتے۔ ہم عجیب عقیدت کے شیرے میں لت پت ہو کر خود فریبی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ہمارے بعض نادان لوگ اور شیعوں کی صفوں میں موجود کچھ منافقین اور ناعاقبت اندیش حضرات اس فعل کے مرتکب ہوتے ہیں، امامبارگاہوں سے لاؤڈ اسپیکر پر یہ عمل انجام دیتے ہیں اور یہاں فیس بک پر تو ان مظاہروں کی بھرمار ہے۔ ہم نہ صرف اتحاد بین المسلمین کے لباس کو تار تار کرتے ہیں بلکہ دشمنان شیعہ کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ جائیں ہمارے خلاف اپنے عوام کو خوب بھڑکائیں اور اپنی حرکات بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔
آپ سب انصاف سے سوچیں کہ ہمارے سنّی بھائی بھی اپنے بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں، یہ بات ٹھیک ہے کہ بہت سی باتوں میں ہم اختلاف کرتے ہیں اور یہ اختلافات صدیوں سے چلے آئے ہیں۔ لیکن اس اختلافات کی بنیاد پر گالم گلوچ اور اس کو عبادت کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ایک عام سنّی یہ سب سن کر برداشت کرے گا کہ اس کے بزرگ کو گالی دی جائے؟
آج ان نادان شیعوں کی ویڈیو یا ایک غالی ذاکر کی تقریر جب ایک عام سنّی دیکھتا ہے تو اس کو ہم سے محبّت ہوگی یا نفرت ہوگی؟ جب اس نفرت کو کوئی سپاہ یا لشکر استعمال کرتا ہوا اسی سنّی کو شیعوں کے قتل پر آمادہ کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار ہمارے یہ ناعاقبت اندیش شیعہ ہیں یا کوئی سپاہ ہے؟
ہمارے کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم تاریخی حقائق بیان کرنا چھوڑیں اور مختلف موضوعات پر شیعہ مسلک کا موقف بیان نہ کریں۔ یہ سب شائستہ انداز میں بیان ہو سکتا ہے، لیکن گالم گلوچ اور سرعام لعنت ملامت کر کے ہم کیا پیغام دے رہے ہیں؟
روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) ! ہم مسجد میں ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو کھلم کھلا آپ کے دشمنوں کا نام لے کر ان پر سب و شتم کرتا ہے
امام (ع) نے فرمایا: اس ملعون کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ہمیں معرض خطر میں ڈال کر لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتا ہے حالانکہ خدا وند عالم فرماتا ہے ’’ اور اللہ (ج) کو چھوڑ کر جنہیں یہ پکارتے ہیں انہیں برا نہ کہو، مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں ‘‘ (سورہ انعام آیت 108)
امام صادق (ع) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ان لوگوں پر سب و شتم نہ کرو ورنہ یہ لوگ علی (ع) پر سب و شتم کریں گےپھر فرمایا: جو شخص ولی اللہ کو برا کہے اس نے گویا خدا وند عالم کو برا کہا۔ جناب رسول خدا (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا: ائے علی (ع) ! جو شخص تم پر سب کرتا ہے وہ خدا پر سب کرتا ہے
حوالہ: الاعتقادات ۔ باب 39 (الاعتقاد في التقية) ۔ صفحہ 107 مصنف: شیخ صدوق (رح) طبع:بيروت – لبنان
یہاں معصوم(ع) واضح طور پر ایسے لوگوں کو ملعون کہہ رہے ہیں اور ان کو اپنا اور اپنے شیعوں کا دشمن قرار دے رہے ہیں؟ پھر کیا یہ منبروں پر چڑھ کر مغلظات بکنے والے ذاکرین اور ہر جگہ کھلے عام تبرّا کہنے والے نام نہاد مؤمنین، دشمنان اہل بیت(ع) نہیں؟
یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای آیت اللہ العظمی سیّد سیستانی و آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی نے اہل سنّت کے مقدّسات کی توہین کو حرام قرار دیا ہے۔
استفائات ھدانا از دفاتر آیات اعظام خامنہ ای ، سیستانی، مکارم دام ظلہم۔
hadana
اللہ تعالی ہمیں صحیح معنوں میں شیعہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور شیعہ مذہب کو اقوام عالم میں صحیح مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔