وہ کون سی چیزیں ہیں جن پر خمس واجب نہيں ہے؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
جواب
سلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
چاہے ان کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو،درج ذيل چيزوں پر خمس عائد نہيں ہوتا
بعض موارد ميں رہبر معظم دامت برکاتہ اور آيت اللہ سيستانى دامت برکاتہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ليے دونوں بزرگ فقيہ كى نظر جدا جدا درج كى جا رہى ہے۔
چاہے ان کی مقدار کتنی زیادہ کیوں نہ ہورہبر معظم دامت برکاتہ كے نزديك درج ذيل چيزوں پر خمس نہيں ہے
۱۔ *ديت* پر خمس نہيں ہے ۔
۲۔ *حق مہر* پر خمس نہيں ہے۔
۳۔ *تحفہ و ہديہ*پر خمس واجب نہيں ہے البتہ احتياط مستحب ہےکہ سال بھر كے اخراجات سے جو زائد ہو اس زائد پر خمس ديا جائے۔
۴۔ *ھِبَہ* پر خمس نہيں ہے، اگرچہ احتياط مستحب ہے كہ خمس ديا جائے اگر سال كے اخراجات سے زائدہ ہو۔ اگر ہديہ يا ھِبَہ ميں قميت كے اعتبار سے اضافہ ہو جائے يا نشوونما ہو جائے مثلا بكرى تحفہ ميں دى جس سے بچہ پيدا ہو گيا تو اگر اس كو اضافہ اور تجارت كى نيت سے ركھا تو احتياط واجب كى بناء پر اس پر خمس ہو گا ليكن اگر تجارت يا اضافہ كرنے كى نيت سے سنبھال كر نہيں ركھا اور اضافہ ہو جائے تو اس اضافہ پر خمس نہيں ہے۔
۵۔ *ميراث* پر خمس نہيں ہے۔ البتہ اگر ميراث ميں اضافہ ہوتا ہے مثلا قيمت بڑھ جاتی ہے يا نشوونما ہوتى ہے تواس اضافہ پر خمس ہے اگر سال بھر كے اخراجات سے زائد ہو۔
۶۔ *طلاق خلع* ميں دى جانے والى رقم پر بھی خمس نہيں ہے۔
۷۔ طلاب گرامى جو حوزہ علميہ ميں درس ميں مشغول ہيں كو *شرعى حقوق* مثلا خمس و زكات وغيرہ ميں سے مراجع عظام كى طرف سےجو كچھ ملتا ہے اس پر خمس نہيں ہے۔
۸۔ حكومت *عيدى* كے نام سے جو اپنے ملازمين كو ديتى ہے اس پر خمس نہيں ہے۔
۹۔ *بينك يا قرض الحسنہ* كے بينك سے جو انعام ديا جاتا ہے اس انعام پر خمس نہيں ہے۔
۱۰۔ جو چيز *وقف* كر دى جائے وہ وقف شدہ چيز چاہے اس كى كتنى ہی قيمت ہو ، وقف خاص ہو مثلا كسى شخص يا گھرانے سے مختص ہو يا وقف عام يعنى عمومى ہو ہر دو صورتوں ميں خمس نہيں ہے ۔
۱۱۔ *جس چيز پر ايك مرتبہ خمس دے ديا جائے اس پر دوبارہ خمس نہيں ہے*۔ يہ اس صورت ميں ہے كہ جس پر خمس ديا تھا وہ شىء يا مال باقى ہے اور وہ خرچ نہيں ہوا۔ پس جس كا خمس دے ديا جائے اس پر خمس نہيں ہے ليكن اگر اس پر اضافہ ہوا ہے تو صرف اس اضافہ پر خمس ہو گا اگر سال بھر كى اخراجات سے زائد ہے۔
۱۲۔ *بيمہ* پر خمس نہيں ہے ۔
۱۳۔ *قرض* كے عنوان سے جو مال ليا جاتا ہے اس پر خمس نہيں ہے۔ (البتہ اگر آپ قرض ليتے ہيں مثلا ۱۰ لاكھ روپے اور اس كو بينك ميں ركھ ديتے ہيں اور اس پيسہ كو خرچ نہيں كرتے اور اپنى دوسرى كمائى سے قرض كى قسطيں ادا كرتے ہيں تو جتنى قسطيں آپ نے دوسرى كمائى سے ادا كى ہيں اور قرض كے پيسے سنبھال كر ركھے ہيں اس مقدار ميں قرض كى رقم پر خمس ہو گا بقيہ قرض كى مقدار پر خمس نہيں ہو گا)
۱۴۔ *جہيز* پر خمس نہيں ہے۔
آيت اللہ العظمٰى سيد سيستانى كى نظر ميں :
۱۔ *ديت* پر خمس نہيں ہے
۲۔ *حق مہر* پر خمس نہيں ہے
۳۔ *طلاق خلع كے عوض بيوى سے ملنے والے مال* پر خمس نہيں ہے
۴۔ *ميراث* پر خمس نہيں ہے۔ اگر دور دراز كسى رشتہ دار جس سے ميراث ملنے كى توقع نہ ہو اس سے ميراث ملے تو احتياط واجب كى بناء پر اس پر خمس ہے۔
۵۔ *خمس يا زكات كا مستحق* سمجھ كر جس شخص كو خمس ديا جائے تو اس كے اصل مال پر خمس نہيں ہے۔ ليكن اگر اس ميں كچھ اضافہ ہوتا ہے اور وہ اضافہ سال بھر كے اخراجات سے بالاتر ہے تو اس زائد بچت پر خمس دينا واجب ہے۔
۶۔ اگر كسى فقير كو *واجب صدقات جيسے كفارات، ردّ مظالم وغيرہ ديئے جائيں يا مستحب صدقات* ديئے جائيں اور وہ صدقات اس كے سال بھر كے اخراجات سے زيادہ ہيں تو زائد پر احتياطِ واجب كى بناء پر خمس ادا كيا جائے گا۔ اسى طرح اگر صدقات ديئے گئے اور اس پر جو منافع يا نشوونما ہوئى ہے وہ سال بھر كے اخراجات سے اوپر ہے تو اس زائد بچت پر بھى خمس دينا احتياط واجب كى بناء پر ضرورى ہے ۔
۷۔ *جہيز* پر خمس نہيں ہے۔ البتہ جب يہ جہيز بيٹى كو منتقل ہو جائے اور وہ اس كى ملكيت بن جائے اور اس كے سال بھر كے اخراجات سے اوپر ہو تو اس زائد پر خمس ادا كرنا واجب ہے۔ مثلا كسى كى ضرورت ۲ ڈنر سيٹ ہيں ليكن جہيز ميں ۴ ڈنر سيٹ مل جاتے ہيں اس صورت ميں دو ڈنر سيٹ كا خمس ادا كرنا ہو گا۔
۸۔ *جس شىء كا خمس دے ديا گيا ہو اس پر دوبارہ خمس نہيں ہے*۔ البتہ اگر اس ميں اضافہ ہوتا ہے قيمت كے اعتبار سے يا وجودى طور پر تو اس اضافہ پر خمس ہے اگر وہ سال بھر كے اخراجات سے اوپر ہو۔
*نوٹ*
آيت اللہ سيستانى كے نزديك ہديہ، ھِبَہ، بيمہ، وہ مال جو طلاب گرامى كو ملتا ہے، وہ انعام جو بينك وغيرہ سے ملتا ہے۔۔ بلكہ ہر ملنے والا منافع اگر سال بھر كے اخراجات سے زائد ہو تو اس زائد يا بچت پر خمس واجب ہے۔
حوالہ: فقہی مسائل کا مجموعہ ،حضرت آیتاللهالعظمٰی خامنہ ای دامت برکاتہ ،بحث خمس، مسئلہ نمبر۱۰۸۱
توضیح المسائل اردو مسئلہ ۱۷۷۱حضرت آیتاللهالعظمٰی سیستانی دامت برکاتہ ،مسئلہ نمبر۱۷۷۱