پسماندہ دین کی اب عقل بشر کو کیا ضرورت ؟

سوال

ترقی پہ گامزن عقل بشر کو پسماندگی لانے والی دینی ہدایات کی کیا ضرورت؟

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    یقینا بشر کے پاس عقل ہے جس سے انسان ہدایت پاتا ہے، ترقی کرتا ہے، اپنی فردی اور سماجی زندگی کو اس کے ذریعہ سنوارتا ہے، قانون وضع کرتا ہے، تہذیب و تمدن ایجاد کرتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ سب درست ہے لیکن اس عقل کے ادراک کی بھی ایک حد ہے ، عقل اس حد سے پرے اپنے بل پر نہیں جا سکتی، اور خود عقل اپنی اس محدودیت کو سمجھتی بھی ہے ، عقل صرف اسی کو سمجھ سکتی ہے جہاں تک اس کی رسائی ہے یعنی صرف اس دنیا کے بارے میں سمجھ سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں ۔

    دین انسان کو وہ بنیادی تعلیمات دیتا ہے کہ جس تک انسان کی رسائی نہیں تھی اور انسان کی سعادت کے لئے وہ تعلیمات ضروری لازمی اور سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اور جہاں تک خود عقل بشر کی رسائی ہے ضروری نہیں کہ دین اس بارے میں بھی ہدایت دے ، اسی لئے دین سائنسی معلومات دینے کے لئے نہیں آیا ہے کیونکہ انسان خود اس تک پہنچ سکتا ہے البتہ سائنسی معلومات حاصل کرنے کے کلیات اور بنیادی اصول بھی دین دیتا ہے، اور دین اسلام ایک جامع اور کامل دین ہونے کی حیثیت سے علوم کے کلیات کے علاوہ بہت سے جزئیات بھی واضح کرتا ہے، لیکن دین کا بنیادی کام ان تعلیمات کو دینا ہے جس تک بشر کی رسائی نہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ جملہ علوم کے کلیات فراھم کرنا ہے اور اس کی روشنی میں جزئیات کا حصول یہ انسان کے اوپر ہے ۔

    دین انسان کو وہ دیتا ہے جو اس کے بس میں نہیں جیسے : مبدء و معاد، عوالم ماوراء، حقوق، کمالات روح وغیرہ یہ وہ موارد ہیں جس تک انسان کی رسائی نہیں ۔ البتہ ایسا نہیں کہ دین سائنس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا بلکہ حقیقت یہ ہے اسی جہان مادی کو صحیح سے سمجھنے کے لئے بنیادی اصولوں کو دین نے بتایا ہے ، قرآن میں اور اس سے کہیں زیادہ روایات میں سائینسی معلومات فراوان موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود قرآن سائینس کی کتاب نہیں ہے بلکہ قرآن کتاب ہدایت ہے ۔

    رہ گئی یہ بات کہ دین پسماندگی لاتا ہے تو یہ بات حقیقت بھی ہے اور غلط بھی۔ حقیقت یوں ہے کہ اگر حقیقی دین کو نہیں سمجھا گیا ، اور دین کے حقیقی ماخذ سے دین کو اخذ نہیں کیا گیا تو وہ دین ہدایت دینے کے بجائے الٹا مزید گمراہیوں کے اندھیرے میں جھونک دیگا ، یہ جو کارل مارکس کہتا ہے کہ دین سماج کا گھن ہے ، اس کا یہ جملہ اس دین کے بارے میں بالکل درست ہے جو عقل وعلم و حکمت کا ہٹدھرمی کے ساتھ مخالف ہے ۔ ظاہر سی بات ہے ایسا دین پسماندگی لاتا ہے ، ترقی کے لئے ایسے دین کو چھوڑنا ضروری ہے ، اسی لئے مغربی معاشرہ نے جب کلیسا کے خودساختہ ایسے فرسودہ دین کو چھوڑا تو ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہوگئے ۔

    لیکن عالم اسلام میں بالکل الٹا ہوا، جب تک معاشرہ کسی حد تک اسلامی تعلیمات پر گامزن رہا تو ترقی کرتا رہا ، دنیا کی سب سے بڑی اور درخشاں تہذیب، اسلامی تہذیب رہی ہے جس نے تمام دنیا کو علم و ہنر کی روشنی دی ، آج موجودہ مغرب میں علمی ترقی، اسلامی تہذیب کے ہی مرہون منت ہے، اس حقیقت کو بہت سے مغربی دانشمندوں نے صراحت کے ساتھ اقرار بھی کیا ہے مثال کے طور پر ویل ڈورینٹ نے اپنی کتاب تاریخ تمدن میں بہت ہی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے ۔

    لیکن بعد میں عالم اسلام نے مغرب کی تقلید کرتے ہوئے دین کو چھوڑ دیا ؛ وہ دین جو مکمل دستور حیات لیکر آیا تھا جو سعادت و آخرت کا ضامن ہے اس دین کی تعلیمات کو مسلمانوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں مٹا ڈالا ، نتیجہ میں روز بروز پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے ۔

    آج بھی اگر مسلمان پھر سے ترقی کرنا چاہیں تو مغربی کی تقلید کو چھوڑنا ہوگا اور دین اسلام کی تعلیمات کو مکمل طور سے اختیار کرنا ہوگا ، البتہ اسلام سے مراد حقیقی اسلام ہے طالبانی اسلام نہیں ۔ ورنہ طالبانی اسلام نہ صرف ترقی نہیں دیتا بلکہ پسماندگی ، جہالت بلکہ حماقت کے عمیق ترین کھائی میں جھونک دیتا ہے ایسا دین نہ صرف معاشرہ کا گھن ہے بلکہ الہی عذاب ہے ۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔