کیا حضرت علی علیہ السلام نے تین پہلے خلفاء کے ہاتھ بیعت کی یا نہیں ؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام علیکم و رحمۃ اللہ
تاریخ اسلام کے مسلّمات میں سے ہے کہ حضرت امیر المونین علیہ السلام نے ان تین خلفاء کی بیعت نہیں کی، حتی اہل سنت کی معتبرترین کتب نے بھی اس بات کا اعتراف کا ہے کہ علی علیہ السلام نے تین خلفاء کی بیعت نہیں کی تھی۔
صحیح بخاری محمد بن اسماعيل بخاری نے لکھا ہے کہ:
و عاشت بعد النبی صلی الله عليه و سلم، ستة أشهر فلما توفيت دفنها زوجها علی ليلا و لم يوءذن بها أبابكر و صلی عليها و كان لعلی من الناس وجه حياة فاطمة فلما توفيت استنكر علی وجوه الناس فالتمس مصالحة أبی بكر و مبايعته و لم يكن يبايع تلک الأشهر۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد چھے مہینے تک زندہ رہیں، جب وہ دنیا سے گئیں تو انکے شوہر نے انکو رات کو مخفیانہ طور پر دفن کیا اور ابوبکر کو خبر تک نہ دی اور خود اس پر نماز پڑھی۔ جب تک فاطمہ سلام اللہ علیہا زندہ تھیں، علی علیہ السلامکا لوگ احترام کیا کرتے تھے، لیکن جب وہ دنیا سے چلی گئیں، تو لوگوں نے علی علیہ السلام سے منہ پھیر لیا۔ ایسے حالات میں علی علیہ السلام نے ابوبکر سے صلح و بیعت کرنے کا سوچا۔ علی علیہ السلام نے ان چھے ماہ میں کہ فاطمہ زندہ تھیں، ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی۔
صحيح البخاری، ج 5، ص 82 .
اسکے بعد بھی جب بیعت کی تھی تو وہ بھی اپنے اختیار و شوق سے نہیں کی تھی، بلکہ ان سے زبردستی زور سے بیعت لی گئی تھی، جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین نے کتاب نہج البلاغہ کے خط نمبر 28 میں لکھا ہے کہ:
إنّی كنت أقاد كما يقاد الجمل المخشوش حتی أبايع۔
مجھے میرے گھر سے زبردستی گھسیٹ گھسیٹ کر مسجد لے کر گئے، جس طرح کہ ایک اونٹ کو اسکی لگام سے پکڑ کر لے جاتے ہیں اور وہ نہ ہی تو فرار کر سکتا ہے اور نہ اسکا کوئی اس میں ارادہ و اختیار ہوتا ہے…
تاریخ میں ہے کہ جب امیر المؤمنین کو مسجد لایا گيا تو، حضرت امیر المؤمنین سے کہا گیا:
فقالوا له : بايع . فقال : إن أنا لم أفعل فمه ؟ ! قالوا : إذا والله الذی لا إله إلا هو نضرب عنقک ! قال : إذا تقتلون عبد الله و أخا رسوله، و أبو بكر ساكت لا يتكلم۔
ابوبکر کی بیعت کرو۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میں بیعت نہ کروں تو کیا ہو گا ؟ انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم، ہم تمہارے سر کو قلم کر دیں گے۔ اس پر حضرت امیر نے فرمایا کہ: اس صورت میں پھر تم لوگ خدا کے بندے اور رسول خدا کے بھائی کو قتل کرو گے۔ یہ سن کر ابوبکر خاموش ہو گیا۔
الإمامة و السياسة بتحقيق الشيری: 31، باب كيف كانت بيعة علی بن أبی طالب
مسعودی کی کتاب اثبات الوصیۃ میں آیا ہے کہ :
فروی عن عدی بن حاتم أنه قال : و الله ، ما رحمت أحدا قط رحمتی علی بن أبی طالب عليه السلام حين اتی به ملببا بثوبه يقودونه إلی أبی بكر و قالوا : بايع ، قال : فإن لم أفعل ؟ قالوا : نضرب الذی فيه عيناک ، قال : فرفع رأسه إلی السماء ، و قال : اللهم إنی اشهدک أنهم أتوا أن يقتلونی فإنی عبد الله و أخو رسول الله ، فقالوا له : مد يدک فبايع فأبی عليهم فمدوا يده كرها ، فقبض علی أنامله فراموا بأجمعهم فتحها فلم يقدروا ، فمسح عليها أبو بكر و هی مضمومة …
امیر المؤمنین کو جب مسجد میں ابوبکر کے پاس لے کر گئے اور ان سے کہا کہ اب تم کو ضرور بیعت کرنی ہو گی۔ علی کا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند تھا۔ سب نے مل کر زور لگایا کہ حضرت امیر کے ہاتھ کو کھولیں اور انکے ہاتھ کو ابوبکر کے ہاتھ پر رکھیں، لیکن سب مل کر بھی انکے ہاتھ کو نہ کھول سکے۔ یہ دیکھ کر خود ابوبکر اٹھ کر آگے آيا اور اپنے ہاتھ کو حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے بند ہاتھ پر بیعت کے عنوان سے رکھ دیا…
إثبات الوصية للمسعودی: 146،
الشافي :ج 3 ص 244 ،
علم اليقين :ج 2 ص 386 و 388 .
بيت الأحزان للمحدث القمی: 118،
الأسرار الفاطميّة للشيخ محمد فاضل المسعودی: 122،
علم اليقين للكاشانی: 686، المقصد الثالث ،
الهجوم علی بيت فاطمة (عليه السلام) لعبد الزهراء مهدی: 136، 343 .