کیا ہبہ اور عیدی میں خمس ہے؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
جواب
سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۱۔ ہبہ اورہدیہ میں خمس نہیں ہے اگرچہ احتیاط (مستحب) یہ ہے کہ اگر سال کے اخراجات سے بچ جائیں تو ان کا خمس ادا کیا جائے۔
۲۔ ہبہ او رہدیہ کا عنوان دینے والے کے قصد اور ارادے کے تابع ہے لہذا انسان کو اس کے باپ، بھائی یا کسی اور رشتہ دار کی طرف سے جو اخراجات ملتےہیں وہ اس صورت میں ہدیہ اور ہبہ شمار ہوں گے جب دینے والا ان کا ارادہ کرے۔
۳۔ وہ وسائل زندگی جو انسان کو اس کے ماں باپ یا دیگر لوگوں کی طرف سے بطور ہدیہ ملتے ہیں ان میں خمس نہیں ہے اگرچہ یہ وسائل اس کی عرفی حیثیت کے مطابق نہ ہوں اور اسے ان کی ضرورت نہ ہو ہاں اگر ایسی چیزیں ہدیہ کے طور پر دینا ماں باپ کی حیثیت سے بڑھ کر ہو تو یہ ان کی مؤونہ شمار نہیں ہوگی اور ان کیلئے اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
۴۔ باپ اگر اپنی بیٹی کو اس کی شادی کے جہیز کے عنوان سے گھر دیتا ہے چنانچہ اگر بیٹی کو گھر ہبہ کرنا عرف میں باپ کی حیثیت کےمطابق ہو اور خمس والے سال کے دوران میں دے تو اس کا خمس واجب نہیں ہے۔
۵۔ شہید فاؤنڈیشن شہدا کے خانوادوں کو جو چیز ہدیہ کرتی ہے اس میں خمس نہیں ہے لیکن اس سے حاسل ہونے والا منافع اگر سالانہ اخراجات سے بچ جائے تو اس میں خمس واجب ہے اسی طرح شہید فاؤنڈیشن کی طرف سے شہدا کے عزیز بچوں کو جو کچھ بطور ہدیہ دیا جاتا ہے اس میں بھی خمس نہیں ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والے منافع کی جو مقدار ان کے شرعی بلوغ کو پہنچنے تک ان کی ملکیت میں باقی رہے بنابر احتیاط ان میں سے ہر ایک پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس ادا کرے۔
۶۔ خمس کی تاریخ آنے سے پہلے انسان اپنی بیوی کو کوئی مال ہدیہ کرسکتا ہے اگرچہ اسے علم ہو کہ بیوی اس مال کو مستقبل میں گھر یا گھریلو وسائل خریدنے کیلئے محفوظ کرلے گی اور جو مال اس نے اپنی بیوی کو دیا ہے اگر وہ اتنی مقدار ہو کہ جو عرف میں اس اور اس جیسے افراد کی حیثیت کے مطابق ہے اور یہ ہدیہ کرنا صرف ظاہری اور خمس سے فرار کے قصد سے نہ ہو تو اس میں خمس نہیں ہے۔
۷۔ صرف ظاہری طور پر اور خمس سے فرار کی نیت سے دیئے گئے ہدیے میں خمس ہے اس بنا پر خمس کی تاریخ آنے سے پہلے میاں بیوی جو صرف طاہری طور پر اپنی سالانہ بچت ایک دوسرے کو ہدیہ کرتے ہیں تاکہ ان کے اموال کے ساتھ خمس کا تعلق نہ ہو سکے تو جو کچھ انہوں نے ایک دوسرے کو دیا ہے اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے ( اس کام کی وجہ سے ان سے واجب خمس ساقط نہیں ہوگا)
۸۔ ہدیہ اور ہبہ کو بیچنے سے جو قیمت وصول ہوتی ہے اس میں خمس نہیں ہے اگرچہ اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہو مگر یہ کہ اسے تجارت اور قیمت بڑھنے کے ارادے سے رکھے تو اس صورت میں اس کی اضافی مقدار میں خمس و اجب ہے۔
۹۔ ملازمین کی عیدی (وہ رقم اور اجناس کہ جو حکومت عید کے دنوں میں اپنے ملازمین کو عیدی کے طور پر دیتی ہے) میں خمس نہیں ہے اگرچہ سال کے آخر تک باقی رہے لیکن اگر وہ اجناس کم قیمت پر ملازمین کو دی گئی ہوں تو چونکہ در حقیقت ان اجناس کی کچھ مقدار حکومت کی طرف سے انہیں مفت اور کچھ مقدار قیمت کے ساتھ دی گئی ہے لہذا باقیماندہ سامان سے جتنی مقدار کے مقابلے میں قیمت ادا کی گئی ہے خود اس سامان کا یا اس کی موجودہ قیمت کا خمس ادا کرنا واجب ہے۔
حوالہ:
https://www.leader.ir/ur