جہاد کی کتنی قسمیں ہیں؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. جواب
    سلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
    جہاد کی دو قسمیں ہیں : ا۔ جہاد ابتدائی ۲۔ جہاد دفاعی

    ۱۔جہاد ابتدائی: یہ جہاد اسلام کی دعوت و تبلیغ کی راہ میں حائل موانع کو دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یعنی دشمن کی جانب سے حملہ کے بغیر دین اسلام کی تبلیغ کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دورکرنے، لوگوں کے مسلمان ہونے کی راہ میں حائل موانع کو برطرف کرنے، اسلام کی تبلیغ و توسیع، کلمۂ حق کی سربلندی، شعائر دینی کے قیام، کفار و مشرکین کی ہدایت اور شرک وبت پرستی کے خاتمہ کے لئے اسلامی فوج جنگ وجہاد کرتی ہے(حقیقت یہ ہے کہ جہاد ابتدائی کا ہدف اور مقصد ملکوں کو فتح کرنا نہیں ہے بلکہ ان اقوام کے فطری حقوق کا دفاع ہے جو کفر وشرک اور استکباری طاقتوں کے سبب خداپرستی ، توحید اور عدالت سے محروم ہیں)

    ۲۔جہاد دفاعی: یہ جہاد دشمن کے حملہ کو روکنے کے لئے دفاع کے طور پرکیا جاتا ہے اور یہ اس وقت ہوگا کہ جب دشمن مسلمانوں کے علاقہ پر حملہ آور ہوکر سیاسی، عسکری، ثقافتی یا اقتصادی طور پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہو۔

    ۱۔ جہاد ابتدائی:

    ۱۔ جہادابتدائی پیغمبر اکرمؐ یا ائمہ معصومین علیھم السلام کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے مصلحت ہونے کی صورت میں ایسا جامع الشرائط فقیہ جو مسلمانوں کی ولایت کا ذمہ دار ہے جہاد ابتدائی کا حکم دے سکتا ہے۔

    ۲۔اہل کتاب (جیسے یہودی، عیسائی اور زرتشتی) جب تک اس اسلامی حکومت کے قوانین کی پابندی کرتے رہیں جس کے زیرسایہ وہ زندگی بسر کررہے ہیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جو ’’امان‘‘ کے منافی ہو تب تک وہ ’’مُعاھَد‘‘ کے حکم میں ہیں(یعنی ان کی جان ، مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے گی اور ان کے جائز و قانونی حقوق کا پاس ولحاظ رکھا جائے گا)

    ۳۔اگر کفاراسلامی علاقوں پر حملہ آور ہوجائیں اور ان کے کچھ افراد مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو جنگی قیدیوں کا اختیار اسلامی حاکم کے ہاتھوں میں ہے اور عام مسلمانوں کو قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کا حق نہیں ہے لہٰذا کسی بھی مسلمان کے لئے کسی کافر یا اہل کتاب کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت ،کفارکے علاقہ میں یا اپنی اسلامی حدود میں غلام یا کنیز بنانا جائز نہیں ہے۔

    ۲۔ جہاد دفاعی:

    ۱۔اسلام اور مسلمین کا دفاع واجب ہے اور اگرچہ اس جہاد کے لئے والدین کی اجازت ضروری نہیں ہے تاہم جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرلینا چاہئیے۔

    ۲۔اگر کسی نفس محترمہ کی جان کا بچانا اور قتل سے روکنا فوری اور براہ راست اقدام پر موقوف ہوتو یہ اقدام جائز بلکہ شرعاً واجب ہے اس لئے کہ نفس محترمہ کی حفاظت اور جان کا تحفظ واجب ہے اور اسکے لئے حاکم کی اجازت یا اس کے حکم کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر نفس محترمہ کا تحفظ حملہ آور کے قتل پر موقوف ہوتو اسکی متعدد صورتیں ہیں اور ان کے احکام بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔

    حوالہ: تعلیم احکام،بحث جھاد،فصل ہفتم ،ص۴۲۳مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای مد ظلہ

جواب دیں۔

براؤز کریں۔