آئمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت تکوینی پر عقلی دلیل کیا ہے ؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

    مختصر جواب :

    آئمہ طاہرین علیہم السلامکی ولایت تکوینی کو دو فلسفی اصول کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے:

    اول۔ خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطے کی ضرورت

    دوم: قاعدہ امکان اشرف۔

    تفصیلی جواب :

    آئمہ طاہرین (علیہم السلام) کی ولایت تکوینی کا دو فلسفی اصول کے ذریعہ اثبات کیا جاسکتا ہےاور وہ اصول یہ ہیں۔ خالق و مخلوق کے درمیان واسطے کا وجود ضروری ہے اور قاعدہ امکان اشرف۔ اور اسی طرح علت و معلول کے درمیان قاعدہ سنخیت سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ خداوندعالم اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ کا ہونا ضروری ہے اور اس سے اس نتیجہ پر پہنچیں کہ خداوندعالم اور اس کی مخلوق کے درمیا ن کسی کا واسطہ ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف جو بھی خداوندعالم کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہو وہ خداوندعالم کے علاوہ ہر چیز پر ولایت رکھتا ہے اس لیے کہ وہ ہر چیز پر احاطہ وجودی رکھتا ہے اور اسلامی منابع کی بنیاد پر حضرت رسول اکرمﷺ و آئمہ طاہرین علیہم السلام واسطہ فیض ہیں لہذا تمام کائنات پر خداوندعالم کےعلاوہ ولایت تکوینی رکھتے ہیں۔

    خداوندعالم اور مخلوقات کے درمیان واسطے کی ضرورت

    علت و معلول کے درمیان ضروری ہے کہ ذاتی سنخیت موجود ہو تاکہ اس سنخیت کے ذریعہ ایک خاص علت سے ایک خاص معلول وجود میں آئے ورنہ ہرچیز کسی بھی چیز کی علت اور کسی بھی چیز کی معلول واقع ہوسکتی ہے۔ اگر ایک علت سے کہ جس میں صرف ایک جہت سے زیادہ اور جہات نہیں ہیں اس سے متعدد معلول کہ جن میں متعدد جہات ہیں اور جو کسی ایک جہت میں متحد نہیں ہوتے، وجود میں آئیں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ایک ذات علت میں متعدد و مختلف جہات موجود ہوں جب کہ ہمارا فرض یہ ہے کہ ذات علت بسیط و واحدہے پس یہ خلاف فرض ہے۔ پس قاعدہ واحد کے تحت الواحد لایصدر عنه الا الواحد واحد سے صرف واحد ہی صادر ہوتا ہے ۔اور اب جب کہ ثابت ہوگیا ہے کہ علت واحد سے صرف معلول واحد ہی صادر ہوتا ہے۔تو اب ہم کہتے ہیں کہ ذات باری تعالی کا وجود بھی بسیط و واحدہے اور کسی بھی طرح کی ترکیب اس میں نہیں ہےلہذا اس کا معلول بھی واحد ہی ہوگا لہذا محال ہے کہ یہ تمام مخلوقات اس قدر کثرت کے باوجود بغیر کسی واسطے کے باری تعالی سے صادر ہوئی ہوں چونکہ علت و معلول میں سنخیت ضروری ہے ورنہ باری تعالی کی ذات میں کثرت نظر آئے گی کہ جو اس کی ذات کے بسیط ہونے سے ناسازگار ہے۔ یہ معلول واحد کہ جس میں اور خداوندعالم کے درمیان کوئی واسطہ و فاصلہ نہیں ہے اورخداوندعالم سے قریب ترین مخلوق ہے لہذا کمالات و فیوضات میں سے سب سے زیادہ حصہ اسی ذات ا طہر کا ہے۔

    نہایۃ الحکمۃ، طباطبائی، محمد حسین، ص30-37

    قاعدہ امکان اشرف

    اس قاعدہ کو بہت سے حکماء نے معتبر جانا ہے اور متعدد فلسفی مسائل کو اس کی بنیاد پر حل کیا ہے۔ اس قاعدے کا ماحصل یہ ہے کہ برترین و شریف ترین ممکن کاپست ترین ممکن سے سلسلہ مراتب وجود میں مقدم ہونا چاہیے لہذاضروری ہے کہ شریف ترین ممکن پست ترین ممکن سے پہلے موجود ہو۔

    اس قاعدہ کے اثبات کے لیے اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی پست تر ممکن خداوندعالم کی جانب سے وجود میں آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے پہلے اس سے شریف تر ممکن موجود ہو ورنہ اگر دونوں کے وجود کو ایک ساتھ فرض کرلیں تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ذات واجب متعال کہ جوبسیط و واحدہے اس سے ایک مرتبہ وجودی اور ایک جہت سے دوچیز صادر ہوں گی جب کہ یہ محال ہے،اور اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ وجود شریف، وجود پست سے بعد میں صادر ہوا ہے اور وجود پست مقدم ہے تو یہ بھی محال ہے۔ اور اگر اس کا وجود نہ ہی قبل نہ ہی بعد اور نہ ہی ساتھ فرض کریں اورپھر بھی قابل تحقق جانیں اور فرض کریں یہ ماہیت قابل امکان وقوعی رکھتی ہے یعنی اس کے وجود سے کوئی امر محال لازم نہیں آتا توپھر اس فرض کا لازمہ یہ ہوگا کہ اس کو ہم ذات واجب یا اس کی کسی معلول سے صادر نہ جانیں اور پھر اس صورت میں اس طرح کا ممکن کہ جو واحب الوجود بھی نہیں ہےتو ذات واجب متعال سے بھی برترکوئی ذات واجب ہوگا جب کہ یہ بھی محال ہے۔ اس لیے کہ واجب بالذات شدت و شرف وجودی میں ہر متناہی و ممکن سے مافوق ہے۔ پس کوئی راستہ باقی نہیں بچتا ہے مگر یہ کہ ہر شریف و بر تر وجود، پست تر وجود سے پہلے موجود ہو۔

    نہایۃ الحکمۃ ،طباطبائی ، محمد حسین، ص391-395

    نتیجہ
    آئمہ طاہرین (علیہم السلام) کی ولایت تکوینی کو دو فلسفی اصول کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے اور وہ دو اصول یہ ہیں: ایک خالق و مخلوق کے درمیان واسطہ کا ضروری ہونا اور دوسری اصل: قاعدہ امکان اشرف۔ اور اسی طرح قاعدہ سنخیت بین علت و معلول کے ذریعہ استفادہ کیا جاسکتا ہے تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ خداوندعالم اور اس کی مخلوق کے درمیا ن بہت سے واسطے ہیں اور دوسری طرف جتنے بھی خداوندعالم اور مخلوقات کے درمیان واسطے ہوں وہ خداکے علاوہ اپنے سے نیچے کی مخلوق پر ولایت تکوینی رکھتے ہوں گے اس لیےکہ وہ ان پر احاطہ وجودی رکھتے ہیں۔

    فہرست منابع

    ادب فنای مقربان،جوادی آملی ، عبداللہ ، طبع اول ،اسراء ،قم۔

    امام شناسی ، حسینی طہرانی ، محمد حسین،ج5،طبع اول ،حکمت،1406ھ۔

    ترجمہ تفسیر المیزان،طباطبا‏‏ئی ، محمد حسین،ج5۔
    شمیم ولایت درآثار آیت اللہ جوادی آملی ، صادقی ، محمود،طبع اول ، اسراء ، قم۔
    مفردات راغب ، اصفہانی۔
    نہایۃ الحکمۃ ، طباطبائی ، محمد حسین، طبع اول سپہر۔
    ولایت تکوینی ، ھمتی ، ہمایون،طبع اول، امیر کبیر، تہران۔
    ولایت فقیہ ؛ ولایت فقاہت و عدالت،جوادی آملی ، عبداللہ ، اسراء ، قم
    ولایت فقیہ،جوادی آملی ، عبداللہ ،طبع اول، اسراء ، قم
    ولایت تکوینی، حسن زادہ عاملی ،طبع اول ،قیام ،قم۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔