اتحاد بین المسلمین سے کیا مراد ہے ؟

سوال

برائے مہرباني وحدت اسلامی کے صحیح مفہوم کي وضاحت فرمائيے ۔ کیا وحدت اسلامی کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب ایک ہو جائیں یا شیعہ اپنے عقائد چھوڑ کے سنی بن جائیں یا سنی اپنے عقیدوں کو چھوڑ کے شیعہ بن جائیں ، یا یہ کہ شیعہ اور سنی اپنے آپس کے اختلافی مسائل کو بھول جائیں اور بھولے سے بھی ان مسائل کو زیر بحث نہ لائیں ۔ ۔ ۔ اور اگر وحدت کا معنی یہی ہے تو وحدت اسلامی کبھی بھی محقق نہیں ہو سکتی ۔ اور اگر وحدت اسلامی کا نعرہ صرف سیاسی حد تک ہے تو یہ ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے ، ہر انسان اتنی سوجھ بوجھ تو رکھتا ہی ہے ، یہ تو ایک Common Senseکا مسئلہ ہے تو پھر اسے دینی مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔

Answer ( 1 )

  1. مختصر جواب :

    اسلامي اتحاد کے معني يه نہيں ہيں، که تمام مذاہب ايک ہوجائيں يا شيعه سني بن جائيں يا سني شيعه ہو جائيں۔ بلکه اتحاد کے معني یہ ہے کہ تمام مسلمان آپس ميں اختلافات رکھنے کے باوجود آپس ميں بہت سے مشترکات رکھتے ہيں، وه ان مشترکات کی بنیاد پر متحد ہو کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف ايک متحده محاذ تشکيل دے سکتے ہيں اور آپس میں ہماہنگی اور يکجهتي بنا کر ایک عظیم طاقت بن سکتے ہیں،اور اس طرح مسلمانوں پر اجنبيوں کے نفوذ اور تسلط کو روک سکتے ہيں۔اسی طرح ہم مشترکات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے اختلافات میں فراخ دلی کے ساتھ علمی مباحثات کے ذریعہ مفاہمت سے کام لے سکتے ہیں ۔

    تفصيلي جواب:

    اسلامي اتحاد:

    اردو میں وحدت کا لفظ اللہ سبحانہ کی وحدانیت کے لئے استعمال ہوتا ہے لہذا اس مقام پر وحدت اسلامی کے بجائے صحیح لفظ اسلامی اتحاد ہے ۔اسلامي اتحاد کے معني مختلف اسلامي مذاہب کا ايک ہونا نہيں ہے۔ يه اتحاد نا قابل عمل ہے اور نه اتحاد کے علمبرداروں نے ایسا کبھی کہا ہے ۔ اتحاد کے معني اختلافات سے چشم پوشي کرکے شيعه کے سني ہونے اور اہل سنت کے شيعه ہونے کے معني بھي نہيں ہيں۔

    مشترکات محور اتحاد

    شيعوں اور اہل سنت کے درميان اتحاد کے صحيح اور حقيقي معني، يه ہيں که، ان دو مذاہب کے درميان بہت سے مشترکات پائے جاتے ہيں، اور قرآن کی نظر میں مشترکات کی بنیاد پر حتی عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی اتحاد ہو سکتا ہے، اور ہونا بھی چاہئے ۔قرآن صرف مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی دعوت نہیں ،بلکہ مشترکات کی بنیاد پر دوسرے ادیان کو بھی دعوت اتحاد دے رہا ہے ، اتحاد کی ایک اہم بنیاد مشترکات ہیں ، اور قرآن کی رو سے جہاں جہاں جس جس سے مشترکات پائے جاتے ہیں انہیں مشترکات کی بنیاد پر اتحاد کیا جا سکتا ہے چاہے وہ عیسائی اور یہودی ہی کیوں نہ ہوں ؛ چنانچہ خداوند عالم قرآن کریم کے آفاقی تعلیمات میں تمام اہل کتاب کو دعوت اتحاد دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

    قُل يا أَهلَ الكِتابِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشرِكَ بِهِ شَيئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوا فَقولُوا اشهَدوا بِأَنّا مُسلِمونَ،سوره مبارکه آل عمران آیه ۶۴

    اس آیہ مبارکہ میں بہت سے آفاقی پیغامات موجود ہیں منجملہ :

    ۱۔ قرآن کی رو سے اتحاد صرف مسلمین سے مخصوص نہیں بلکہ تمام اہل کتاب، عیسائی ہوں یا یہودی سب سے اتحاد ممکن ہے ؛بلکہ ضروری ہے ؛کیونکہ یہ قرآن کا حکم ہے ، لہذا ہم قرآن کی آفاقی تعلیمات کی بدولت پورے وسعت قلب سے تمام اہل کتاب کو دعوت اتحاد دیتے ہیں ، البتہ اگر وہ،خاص کر یہودی ، تنگ نظری سے کام لیں ، اور اس دعوت اتحاد کو ٹھکرا دیں فَإِن تَوَلَّوا تو انہیں جتاو کہ ہم توابھی بھی امن پسند ہیں فَقولُوا اشهَدوا بِأَنّا مُسلِمونَ۔

    ۲۔ قرآن کی رو سے دعوت اتحاد تو اہل کتاب کے ساتھ ہے ، تو جب عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی اتحاد ہو سکتا ہے تو مسلمین اور مومنین میں تو بدرجہ اولی ۔ قرآن کی نظر میں مومنین تو آپس میں بھائی ہیں : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

    سوره مبارکه حجرات آیه ۱۰

    ۳۔ قرآن کی رو سے اتحاد کی بنیاد نکتہ اشتراک ہے، اگرچہ وہ نکتہ اشتراک صرف ایک ہی مورد کیوں نہ ہو، تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم کیونکہ ہم مسلمانوں میں اور عیسائی اور یہودیوں میں نکات اختلاف زیادہ ہیں ، نکات اشتراک میں نام کی توحیدکے علاوہ شاید ہی کوئی اور نکتہ اشتراک مل سکے ۔

    ۴۔ قرآن کی رو سے اتحاد کی بنیاد نکتہ اشتراک ہے ، اگرچہ وہ نکتہ اشتراک برائے نام ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ اس آیت میں اصل توحید کو نکتہ اشتراک کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، جبکہ اگر اس بات کی کھال نکالی جائے تو پتہ چلے گا کہ توحید مسلمانوں میں کچھ اورہے ؛ عیسائیوں اور یہودیوں میں توحیدبہت مختلف ہے؛ حقیقت میں توحید میں بھی اشتراک نہیں پایا جاتا ہے ، کیونکہ ان کے یہاں توحید برائے نام ہے ، حقیقی معنی میں وہ لوگ توحید پرست موحد نہیں ہیں ۔ اس نکتہ کی روشنی میں قرآن ہمیں یہ آفاقی پیغام دینا چاہ رہا ہے کہ اگر چہ وہ نکتہ اشتراک برائے نام ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اسی کو اتحاد کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے ۔

    ۵۔ قرآن کی رو سےاتحاد کے لئے آپس کے حد اشتراک کو حاصل کر نے میں تسامح سے کام لو ، یعنی مشترکات کو ڈھونڈھ کے تلاش کرکے بلکہ تراش تراش کے کرید کرید کے نکالو؛ اتحاد کے لئے حقیقی مشترکات نہیں بلکہ بہانے ڈھونڈھو۔

    اسی سے اندازہ لگائیے کہ جب ایک برائے نام حد اشتراک کی بنیاد پر عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی اتحاد ہو سکتا ہے تو مسلمانوں میں کیوں نہیں، جبکہ ان میں مشترکات بھی بہت ہیں اور وہ مشترکات برائے نام بھی نہیں بلکہ حقیقی ہیں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

    منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

    ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

    حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

    کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

    تو مسلمانوں کے درميان مشترکات کی فہرست بہت طویل ہے ، ان میں خدا، رسول ، قرآن، کعبہ، محبت اہل بيت، حضرت علي[ع]، مسئله مہدوديت،۔ ۔ ۔ جیسے دینی مسائل کے علاوہ آج کے بہت سیاسی اور معاشرتی مسائل منجملہ فلسطين کے عوام کا دفاع اور اسرائيل اور امريکه جيسے دشمنوں سے مقابله کرنا بھی قابل ذکر ہے، لہذا مسلمانوں کے تمام مذاہب کو ان مشترکات کے محور پر آپس ميں نزديک آنا چاہئے، تاکه اسلام کي حفاظت کے لئے آپس ميں تعاون اور ہم کاري کريں، کيونکه دونوں کا دشمن ايک ہے۔ اسلام کے دشمن، دونوں مذاہب کے دشمن ہيں۔ ان دشمنوں کے مقابلے ميں پوری قوت کے ساتھ مل کے صف آرا ہونا چاہئے، تاکه دشمن ان کے با ہمي اختلافات سے غلط فائده نه اٹھا سکے، بلکه ان دونوں گروہوں کو اپنے مشترکات کی بنیاد پر ، اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے ميں مل کے اپنا دفاع کرنا چاہئیے ۔

    شيعه اور سنيوں کے درميان صديوں سے نظرياتي اختلافات بھی موجود ہيں ، یہ ایک حقیقت ہے مگر بعض اوقات فتنه گروں کي ريشه دوانياں ان دو گروہوں کے ايک دوسرے سے دور ہونے کا سبب بني ہيں۔ بلکه تاريخ ميں بہت سي لڑائياں بھي ہوئي ہيں۔ اور بيشک عصر حاضر ميں مغربي يلغار کے مقابلے ميں مسلمانوں کي ايک کمزوري يہي امر ہے۔

    شيعه اور سني دونوں مسلمان ہيں اور اعتقادات، احکام، اور اخلاق وغيره ميں آپس ميں بہت سے مشترکات رکھتے ہيں۔ البته آپس ميں کچھ اختلافات بھي رکھتے ہيں جو ناقابل انکار ہيں۔ ليکن يه اختلافات خصومت اور دشمني ميں تبديل ہوکر اسلامي اتحاد و برادري پر کاري ضرب لگانے کا سبب نہيں بننے چاہئے، بلکہ ہم مشترکات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے اختلافات میں فراخ دلی کے ساتھ علمی مباحثات کے ذریعہ مفاہمت سے کام لے سکتے ہیں۔

    اتحاد اور سیاست :

    حقیقت میں اتحاد ایک اسلامی اور قرآنی مفہوم اور دینی فریضہ ہے ، اتحاد محض سیاسی نہیں ہے ، پھر بھی یہی سیاست اتحاد کی بنیاد بھی بن سکتی ہے ۔

    علامه شرف الدين کهتے ہيں:”سياست، شيعه اور سنيوں کے درميان جدائي کا سبب بني ہے، يہي شيعوں اور اہل سنت کے درميان اتحاد و اتفاق کا سبب بنني چاہئے۔

    شرف الدين، عبد الحسين، اجتهاد در مقابل نص، ترجمه، دواني، علي، ص 8، چاپ دوم، کتابخانه بزرگ اسلامي، 1396 ھ۔

    مطلب يه که استعماري سياست اور اجنبيوں کي ريشه دوانيوں نے اسلامي فرقوں، من جمله شيعه اور اہل سنت کو ايک دوسرے سے جدا کيا ہے، اس لئے يه اسلامي سياست کا ہي کام ہے که مشترکه دشمن سے مقابله کرنے کے لئے، انہيں متحد کرے۔

    اتحاد اور علمي کاوشیں:

    اتحاد کے يه معني بھی نہيں ہيں که ان دو مذاہب کے درميان علمي مباحث کو ترک کردینا چاہئے۔ اتحاد و يکجهتي کي حفاظت کرتے ہوئے بھي علمي ماحول ميں علمي کاوشوں کو جاري رکھا جاسکتا ہے، اس طرح که دشمن اس کا نا جائز فائده نه اٹھا سکيں۔

    واضح ہے که اس اتحاد کو حاصل کرنے کے لئے پہلے اختلاف و افتراق کے عوامل اور اتحاد کے موانع کو راسته سے ہٹانا ضروري ہے، اور طرفين کو ايک دوسرے کے عقائد اور افکار کو صحيح معنوں ميں سمجھنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے، اور يه چيز علماء کے درميان مذاکرات اور علمي بحث کے بغير ممکن نہيں ہے۔ اتحاد، تحقيق و جستجو ، حقيقت جوئي اور انصاف طلبي ، فکری آزادي کی نہ صرف نفي نہيں کرتا بلکہ ان کے لئے مناسب ماحول فراہم کرتا ہے ۔

    اگر يه علمي مباحث ،علمي روشوں کے تحت ، جملہ آداب کي رعايت کرتے ہوئے انجام پائيں، تو نه صرف دو مذاہب کے درميان تفرقه و جدائي کا سبب نہيں بنيں گے، بلکه ايک دوسرے کو پہچاننے اور قريب لانے کا سبب بنيں گے اور نتيجه کے طور پر اتحاد و يکجهتي میں مزید استحکام پیدا ہوگا ۔ اس لحاظ سے علمي مباحثات نه صرف تفرقه پھيلانے والے نہيں ہيں بلکه اتحاد کو مضبوط بنانے والے بھي ہيں۔

    تاریخ اتحاد:

    تاريخ کا مطالعه کرنے سے، مختلف مذاہب اسلامي کے درميان اتحاد و اتفاق کے بہت سے نمونے اور ان کے نتائج مل سکتے ہيں اور ان کو اسلامي معاشروں ميں نمونه عمل کے طور پر پیش کيا جاسکتا ہے۔

    حضرت علي عليه السلام کي سيرت، اسلامي برادري اور اتحاد کے لئے بہترين نمونه عمل ہے۔ وه مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کي حفاظت کے لئے نه صرف اپنے حقوق سے چشم پوشي کرتے تھے، بلکه اپنے مخالفين سے تعاون و ہم کاري کرنے سے بھي دريغ نہيں کرتے تھے۔

    عالم اسلام کے بہت سے جید علما ء اور نامور بزرگوں نے بھی اتحاد و اتفاق کو برقرار کرنے کي کوششيں کي ہيں۔ حضرت آيت الله بروجردي[رح] ، حضرت امام خميني [رح]، علامه شرف الدين، سيد جمال الدين اسد آبادي، امام موسيٰ صدر جيسے شيعہ علماء تو اہل سنت میں سے بھی شيخ شلتوت جیسوں کے نام قابل ذکر ہيں، جنہوں نے مسلمان فرقوں کے درميان اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے لئے موثر اور قابل قدر اقدامات کئے ہيں۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔