امانت حقّ الله ہے یا حقّ الناس ؟

سوال

کیا امانت میں خیانت حقّ الناس اور قابل گذشت ہے؟ یا حقّ الله ہے اور غیر قابل گذشت؟

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    پہلی بات : حق الناس ، حق اللہ سے الگ نہیں ہے ، یعنی حق اللہ اور حق الناس میں نسب اربعہ میں سے نسبت عموم خصوص مطلق کی ہے، اور حق اللہ، حق الناس سے اعم مطلق ہے۔ یعنی یہ کہ کچھ حق ہیں جو صرف حق اللہ ہیں، حق الناس نہیں ہیں، لیکن کوئی بھی حق الناس ایسا نہیں جو حق اللہ بھی نہ ہو۔ ہر حق الناس، حق اللہ بھی ہے۔ حقوق الناس بھی حقوق اللہ کی فرع ہے، حق الناس کو پامال کرنے والا حقیقت میں حق اللہ کو بھی پامال کیا ہے، اس لئے حق اللہ کی پامالی کی وجہ سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرے ۔

    اس بنیاد پر امانت پہلے حق اللہ ہے، اور حق اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ حق الناس بھی ہے، امانت میں خیانت پہلے حق اللہ کی پامالی ہے جس کے لئے اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ضروری ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ حق الناس بھی ہے جس کی بھرپائی بھی ضروری ہے ۔

    دوسری بات : حقوق الناس کی بھرپائی صرف توبہ اور استغفار سے نہیں بلکہ اسے جبران کرنے سے ہوتی ہے ، اور جب تک جبران نہ ہو تو اللہ بھی اسے معاف نہیں کرتا ۔

    حقوق الناس بھی دو طرح کے ہیں : مالی حقوق اور غیر مالی حقوق ۔ اسی طرح سے امانتیں بھی دو طرح ہوتی ہیں : مالی امانتیں اور غیر مالی امانتیں جیسے کسی کا راز وغیرہ ۔ ۔ ۔

    مالی حقوق اور مالی امانتوں کے لئے اسے ادا کرنا ضروری ہے، اور غیر مالی حقوق اور امانتوں کے لئے صاحب معاملہ سے حلالیت طلب کرنا ضروری ہے ۔

    تیسری بات : حقوق اللہ کا حساب سن بلوغ سے ہوتا ہے لیکن حقوق الناس کا حساب سن بلوغ سے نہیں بلکہ اگر بلوغ سے پہلے بھی کسی کا مال یا حق ضایع کیا ہے تو وہ اس مال اور حق کا ضامن ہے، کیونکہ بلوغ سے پہلے اگرچہ احکام تکلیفی نہیں ہوتے مگر احکام وضعی مترتب ہوتے ہیں ۔

    چوتھی بات : جس کا حق ہے یا آپ اسے پہچانتے ہیں یا نہیں پہچانتے ، اگر پہچانتے ہیں تو یا اس تک رسائی ہے یا رسائی نہیں ہے ، اگر رسائی ہے تو یا رسوائی کا خوف ہے یا یہ خوف نہیں ہے ، تو اگر رسائی ہے اور خوف رسوائی بھی نہیں ہے تو خود صاحب حق کو اس کا حق ادا کرکے بری الذمہ ہوجائیں ، لیکن اگر رسوائی کا خوف ہو تو ناشناس انداز میں کسی طرح سے اس کا حق اس تک یا اگر وہ مر گیا ہے تو اس کے ورثا تک پہنچا دیں ، نہ نام لینے کی ضرورت ہے ، اور نہ باقی تفصیلاتی کی ضرورت ہے۔ مہم یہ ہے کہ آپ کی طرف سے صاحب حق تک اس کا حق کسی طرح سے پہنچ جائے ۔ اور اگر کسی بھی وجہ سے صاحب حق تک رسائی نہ ہو یا آپ اسے پہچانتے ہی نہ ہوں تو اس کی طرف سے رد مظالم کے طور پر حاکم شرعی کو ادا کر دیں ، نیز اس کی طرف صدقہ ادا کریں ، اور کار خیر انجام دیں ۔

    پانچویں بات : ادا کرنے کی مقدار کے سلسلہ میں اگر وہ مقدار معین اور معلوم ہے تو اتنا ہی ادا کر دیں اور بری الذمہ ہو جائیں لیکن اگر مقدار نہیں معلوم تو قدر متیقن مقدار ادا کرنا تو واجب ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ اتنا بڑھا کے ادا کرے کہ بری الذمہ ہونا قطعی ہوجائے ۔

    تفصیلات اور حوالے :

    http://farsi.khamenei.ir/treatise-content?id=157#1766

    http://www.leader.ir/fa/book/11?sn=4516

    http://www.leader.ir/fa/content/16875/

    http://www.leader.ir/fa/content/19260/

    https://www.sistani.org/persian/book/53/236/

    http://www.pasokhgoo.ir/node/90147

جواب دیں۔

براؤز کریں۔