برتھ کنٹرول کا شرعا کیا حکم ہے؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ
    کلی طور پر حاملہ نہ ہونے کے لئے دوا یا دوسرے وسائل کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ڈاکٹر کے کہنے کی وجہ سے ہو یہ اپنی مرضی سے۔ البتہ دائمی طور پر اپنے کو بانجھ بنانا جائز نہیں ہے۔
    لیکن حمل ٹہر جانے کے بعد اسے گرانا کسی بھی صورت میں جایز نہیں ہے مگر یہ کہ ماں کی جان کو خطرہ ہو یا بچہ کا باقی رہنا ماں کے لیے بہت سخت اور غیر قابل تحمل ہو اور اس سے نجات کا سقط کے سوا کوئی راستہ نہ ہو اس صورت میں بچہ میں روح آنے سے پہلے سقط کرنا جایز ہوگا، لیکن روح آنے کے بعد اس کا سقط کرنا کسی بھی حالت میں جایز نہیں ہے۔
    ناقص پیدا ہونے یا کچھ دن کے بعد مر جانے کا احتمال یا یقین اس کے سقط کا سبب نہیں بن سکتا اور ماں اس بناء پر ڈاکٹر کو سقط کی اجازت نہیں دے سکتی اور ڈاکٹر بھی اسے سقط نہیں کر سکتے، اور اگر اس خطرے کی وجہ سے بچہ سقط کر دیا جائے تو سقط کرنے والے پر دیت واجب ہوتی ہے۔
    دفتر نهاد نمایندگی رهبری، دا دانشگاہ علوم پزشکی
    احکام شرعی پزشکان، پرستاران
    سوالات دربارہ جلوگیرى از انعقاد نطفه
    http://nahad.bums.ac.ir
    استفتائات آیۃ اللہ خامنہ ای۔ مسائل پزشکی
    http://www.leader.ir
    سوال جواب آیۃ اللہ سیستانی، حمل کے بارے میں سوال و جواب
    https://www.sistani.org/urdu/qa/01789/
    اسلام میں شادی کی بہت تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ قرآن مجید میں معاشرے کے ذمہ دار افراد کو حکم دیا ہے کہ اپنے جوانوں کی شادی کا انتظام کریں۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:
    ’’وأنكحوا الأيامى منكم والصالحين من عبادكم وإمائكم إن يكونوا فقراء يغنهم الله من فضله والله واسع عليم‘‘۔(النور: ٣٢)
    ’’ تم میں سے جو مرد، عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو، اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔
    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے اسکی اہمیت بتاتے ہوئے اس کو آدھے دین کی حفاظت قراردیا ہے۔
    چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا ارشاد ہے:
    إذا تزوج العبد فقد استكمل نصف الدين، فليتق الله في النصف الباقي ( كنز العمال: ٤٤٤٠٣. ميزان الحكمة – محمد الريشهري – ج ٢ – الصفحة ١١٧٩)
    جب کوئی بندہ شادی کرلیتا ہے تو اسکا آدھا دین محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب اسکو چاہئے کہ باقی آدھے دین کی حفاظت کے لئے تقوی اختیار کرے۔
    دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے شادی نکاح کا اصلی مقصد توالد وتناسل بتایا ہے اور اسکو نسل کی زیادتی کا سبب قرار دیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے:
    ’’تناكحوا تناسلوا تكثروا، فإني اباهي بكم الامم يوم القيامة و لو بالسقط‘‘ (نمازي، حسن بن علي، مستدرك سفينه البحار، قم، جامعه مدرسين، سال 1419، ج4، ص340).
    ’’نکاح کرو، نسل میں اضافہ کرو تاکہ تمھاری تعداد زیادہ ہو جائے۔ کیونکہ میں روز قیامت تمھاری تعداد کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کرونگا چاہے میری امت کا کوئی بچہ سقط ہی کیوں نہ ہو گیا ہو۔‘‘
    اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء، دانشور اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اولاد کی کثرت مطلوب ہے، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے کسی ایک موقع پر بھی بچوں کو کم پیدا کرنے کی کوئی ترغیب دور دور تک کہیں نہیں ملتی، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اپنی امت کے لئے بہت زیادہ شفیق اور رحم کرنے والے تھے۔
    البتہ علماء کا اتفاق ہے کہ ہر زمانہ کے اعتبار سے وقتی مانع حمل کے مہیا اسباب اختیار کرنے کی گنجائش تو ہے مگر یہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ نیز ہمارا یہ ایمان ہے کہ جو چیز بھی مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گی اور رازق وخالق ومالک کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر بچہ اپنے ساتھ اپنا رزق لے کر آتا ہے۔
    دوسرے بعض حضرات وقتی مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا کھانا وغیرہ) کو حرام سمجھ کر یہ اسباب اختیار نہیں کرتے ہیں، لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل Abortion کی تدبیروں میں لگ جاتے ہیں حالانکہ اسقاط حمل حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اگر ہم اولاد کے درمیان وقفہ چاہتے ہیں تو مانع حمل کے جائز طریقے پہلے سے اختیار کرلیں، تاکہ بعد میں اسقاط حمل کا معاملہ ہی درپیش نہ ہو، کیونکہ حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل کروانا حرام ہے۔
    حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، الّا یہ کہ عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔