بچے کو حج کرانے کا حکم کیا ہے ؟
سوال
میں ڈھائی سال کے بچے کو حج پر لے جانا چاہتا ہوں۔ احرام اور دیگر اعمال کے اعتبار سے اسکا کیا حکم ہے؟
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام علیکم و رحمۃ اللہ
بچے کو حج پر لے جانا مستحب اور باعث اجر عظیم ہے۔ چنانچہ ایک خاتون اپنے کمسن بچے کو حج پر لے گئی اور پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا ’’ کیا اسکا بھی حج ہے؟ آنحضرت نے جواب دیا: ہاں، اور اسکا ثواب تم کو ملےگا۔ محمدی ریشهری، محمد، حج و عمره در قرآن و حدیث، ص۳۱۴
بچوں کے اعمال کے سلسلہ میں آیات اعظام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اپنے نابالغ بچے کو حج پر لے جائے تو اس کے اعمال کی ذمہ داری ولی کی گردن پر ہے۔ مثلا اگر بچہ محرمات حج میں سے کوئی فعل انجام دیدے تو اس کا کفارہ اور اسی طرح اس کی طرف سے قربانی کرانا ولی کی ذمہ داری ہے۔ مناسک حج آیہ اللہ خامنہ ای
بچوں کے حج کے مفصل احکام آیہ اللہ سیستانی مد ظلہ کے مطابق یہ ہیں
غیر ممیز بچہ یا بچی کے ولی کے لئے مستحب ہے کہ وہ ان کو حج کرائے اس طرح کہ ان کو احرام باندھے، ان کو تلبیہ کہلوائے اور اگر وہ سیکھنے کے قابل ہوں تو انہیں سکھائے (یعنی جو بھی انہیں کہنے کو کہے وہ کہہ سکیں) اور اگر سکھانے کے قابل نہ ہوں تو خود ان کی جانب سے تلبیہ کہے اور احرام والے شخص کا، جن چیزوں سے بچنا واجب ہے بچے کے ولی کے لیے جائز ہے کہ اگر وہ فخ کے راستے سے جارہا ہو تو مقام فخ تک بچے کے سلے ہوئے کپڑے یا جو ان کے حکم میں آئے انہیں اتارنے میں تاخیر کرے ، افعال حج میں سے جنہیں یہ بچہ یا بچی انجام دے سکتے ہوں اس کو انجام دینے کو کہے اور جو انجام نہ دے سکتے ہوں ان کو خود ولی اس کی نیابت میں انجام دے، ان کو طواف کرائے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرائے، عرفات اور مشعر میں وقوف کرائے، اگر بچہ یا بچی رمی (کنکر مارنے) کرنے پر قادر ہو تو اسے رمی کرنے کو کہے اور قادر نہ ہو تو اس کی طرف سے خود رمی کرے نماز طواف پڑھے، سر مونڈھے اور دیگر اعمال کا بھی حکم یہی ہے۔
غیر ممیز بچے کا ولی بچے کو احرام پہنا سکتا ہے چاہے خود احرام پہنے ہوئے بھی ہو۔
اظہر یہ ہے کہ غیر ممیز بچے کا ولی، جس کے لیے بچے کو حج کرانا مستحب ہے، وہ شخص ہے جس کے پاس بچے کی دیکھ بھال اور سرپرستی کا اختیار ہو، چاہے وہ ما ں باپ ہوں یا کو ئی اور اس کی تفصیل "کتاب النکاح” میں بیان ہوئی ہے ۔
بچے کے حج کے اخراجات اگر عام اخراجات سے زیادہ ہوں تو زائد مقدار ولی کے ذمے ہوگی لیکن اگر بچے کی حفاظت کی خاطر یا مصلحتا ساتھ جانا ضروری ہو اور حج کے اخراجات، سفر کے اخراجات کی نسبت زیادہ ہوں تو بچے کے مال سے صرف سفر کے اخراجات لیے جا سکتے ہیں ،حج کرانے کے اخراجات نہیں ۔
غیر ممیز بچے کی قربانی کا خرچہ ولی کے ذمہ ہے اسی طرح بچے کے شکار کا کفارہ بھی ولی کے ذمہ ہے لیکن وہ کفارات جو موجبات کفارہ کو عمدا انجام دینے کی وجہ سے ہوتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ بچے کے انجام دینے کی وجہ سے نہیں ہوتے چاہے بچہ ممیز کیوں نہ ہو لہذا ان کفارات کی ادائیگی نہ ولی کے ذمہ ہے اور نہ ہی بچہ کے مال سے نکالنا واجب ہے۔ توضیح المسائل آیه الله سیستانی مد ظله . مناسک حج. شرائط وجوب حج