تقلید کیوں لازم و ضروری ہے؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

    اس کا سمجھنا چند چیزوں پر موقوف ہے

    ۱-: علم کی متعدد شاخیں ہیں اور ممکن ہے ایک فرد کسی ایک شعبے میں خاص مہارت رکھتا ہو لیکن دوسرے شعبے سے بے خبر ہو نتیجتاً عقل کے حکم کے مطابق جس شعبے میں مہارت نہیں رکھتا اُس شعبے کے ماہر افراد کی طرف رجوع اور ان کی بات کی پیروی کرے مثلاً جو شخص فضائی علوم میں مہارت رکھتا ہے جب وہ بیمار ہوتا ہے توچونکہ بیماریوں اور اس كے علاج کے طریقوں سے ناآشنا ہے لامحالہ ایک ماہر ڈاکٹر کی طرف رُجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور یہ ڈاکٹر ہے جو اسے دستور دے گا کہ فلاں ٹیبلٹ چند عدد کھائے یا فلاں انجکشن لگوائے کیوں کہ فضائی علوم کے ماہرین ڈاکٹر کی پیروی کو خود پر لازم سمجھتے ہیں اور مجموعی طور پر وہ کام جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں اور اس کی راہ و روش سے آشنا نہیں ہیں تو اس کے ماہر افراد کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے چارہٴ كار کو اس کے ماہرین سے پوچھتے ہیں اور جس فن کو بھی سیکھنا چاہتے ہیں اسی فن کے استاد کی شاگردی کو انتخاب کرتے ہیں جو اس فن میں ماہر ہے اور بصیرت و آگاہی رکھتا ہے احکام شرعی اور حلال و حرام کی شناخت کا طریقہ اور اس سے آشنائی بھی اسی طریقے سے ہے اس لیے ایسے فقیہ كی طرف رجوع کیا جائے جو احکام دین میں ماہر اور اس کا اسپیشلسٹ ہو۔

    ۲-: احكام الٰہی كا مخصوص منبع و ماخذ قرآن كریم اور پیغمبر اکرمؐ نیز ائمہ معصومین علیہم السلام كی وہ احادیث ہیں جو ان سے نقل ہوئی ہیں ( جنھیں ثقلین كہا جاتا ہے)

    ۳-: وہ مطالب اور علوم و معارف جو قرآن مجید اور احادیث اہل بیت علیہم السلام میں آئے ہیں ان کا سمجھنا اور حل کرنا آسان نہیں ہے بلکہ ایک خاص مہارت کی ضرورت ہے اور جب تک ایک شخص عربی زبان کے ادب اور اسلام کے مختلف علوم جیسے تفسیر قرآن، درایہ، حدیث شناسی ، علم رجال اور حدیث کے راویوں کی شناخت ، اصول فقہ، فقہائے اسلام کے نظریوں وغیرہ سے واقفیت میں مہارت نہ رکھتا ہو اور اصطلاحاً خداوند متعال کی توفیق سے درجہٴ اجتہاد اور فقاہت پر نہ پہونچا ہو ہرگز وہ احکام خداوند متعال کو اس کے منابع اور مصادر سے استخراج نہیں کر سکتا، آپ ایک مختصر سی کتاب ، رسالہٴ عملیہ یا توضیح المسائل کے نام سے دیکھتے ہیں اور شاید یہ نہ معلوم ہو کہ یہ رسالہٴ عملیہ ایک فقیہ اور مجتہد کی عمر کی كافی زحمت کا نتیجہ ہے کہ اپنی مہارت اور طاقت فرسا زحمات کے ذریعے اسے دینی منابع اور مصادر سے استنباط کرکے لوگوں کے اختیار میں قرار دیا ہے۔

    جو کچھ بیان کیا گیا اسے مدّنظر رکھتے ہوئے فقہا اور مجتہدین كی طرف رجوع کرنا ضروری ہےجنہوں نے اجتہاداور فقاہت کے راستے کو اس خاص وسعت کے ساتھ جو اس میں پائی جاتی ہے طے کیا ہے ، ، اور مجتہد کی تقلید کا مسئلہ حکم عقل اور منطق سے ثابت ہے، اور تقلید کا معنی آنکھ بند کرکے کسی کی بات ماننا نہیں ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اس کا مقابلہ اور مخالفت کی ہے اور قرآن مجید اسے نا پسند ترین صفات میں سے شمار کرتا ہے۔

    بلکہ تقلید کا مطلب ہے کہ دین میں مہارت نہ رکھنے والا شخص ایسے شخص کی طرف جو دین میں مہارت رکھتا ہے اور اسپیشلسٹ ہے رجوع کرے اور مندرجہ ذیل حدیث جو امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل ہوئی ہےوہ اس مطلب کی تائید کرتی ہے:

    ’’ … فَأمّا مَنْ کانَ مِنَ الفُقَهَاءِ، صائِناً لِنَفْسِهِ، حافِظاً لِدیٖنِهِ، مُخٰالِفاً عَلیٰ هَواهُ، مُطیٖعاً لأمْرِ مَوْلاهُ فَلِلْعَوٰامِ اَنْ یُقَلِّدُوْهُ‘‘ [۱]

    اس حدیث شریف میں امام علیہ السلام نے فقہا و مجتہدین کے چندخصوصیات بیان فرمائے ہیں کہ

    ۱۔ خداوند متعال کے دین کا محافظ اور نگہبان ہو۔

    ۲۔ اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرے۔

    ۳۔ خداوند متعال اور اپنے مولائےحقیقی کے امر اور فرمان کا مطیع ہو ، تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں

    جو کچھ بیان کیا گیا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ دینی مسائل اور احکام شرعی میں ان لوگوں کے لیے اظہارِ نظر کرنا جو مرتبہٴ اجتہاد پر فائز نہیں ہیں اور احکام کی دلیلوں سے آشنا نہیں ہیں جائز نہیں ہے، اور مومنین و مومنات پر واجب ہے کہ تمام دینی احکام

    اور شرعی مسائل میں قابلِ اعتماد مراجع عظام اور اسلام شناس افراد كی طرف رجوع کریں۔

    وسائل الشیعہ،حر عاملی،جلد۲۷،صفحہ۱۳۱

جواب دیں۔

براؤز کریں۔