تیسرے طبقے کی میراث کے احکام بیان کریں؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    تیسرے طبقے کی ميراث
    1.تیسرے طبقے کے لوگ چچا پھوپی ماموں اور خالہ اور ان کی اولاد ہیں۔ اس تفصیل کے ساتھ جو بیان ہو چکی ہے کہ اگر پہلے اور دوسرے طبقے کے افراد میں سے کوئی موجود نہ ہو تو یہ میراث لیں گے۔
    2.اگر میت کا وارث صرف ایک پھوپی ہو چاہے ماں باپ کی طرف سے ہو یعنی میت کے باپ کے ماں باپ اور اس کے ماں باپ ایک ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے ہو تو تمام مال اسی کو ملے گا اور اگر کئی چچا یا کئی پھوپھیاں ہوں اور وہ تمام ماں باپ کی طرف سے ہوں یا تمام صرف باپ کی طرف سے ہوں تو مال ان کے درمیان مساوی تقسیم ہوگا۔ اور اگر چچا اور پھوپھی دونوں ہوں اور ہوں بھی ماں باپ کی طرف سے یا صرف باپ کی طرف سے تو چچا پھوپی کو دیا جائے گا مثلاً اگرمیت کے وارث ، دو چچے اور ایک پھوپی ہو تو مال پانچ حصوں میں تقسیم ہوگا ۔ ایک حصہ پھوپھی کو دیا جائے گا اور چار حصے چچاوں کو اور چچا آپس میں برابر تقسیم کرلیں گے۔
    3.اگر میت کے وارث صرف چند مادری چچا یا چند مادری پھوپھیاں ہیں تو مال مساوی طور پر ان کے درمیان تقسیم ہوگا اور اگر صرف چند مادری چچا اور پھوپھیاں ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ یہ آپس میں مصالحت کرلیں گے۔
    4.اگر میت کے وارث چچا اور پھوپھیاں ہیں اور ان میں سے بعض پدری اور بعض مادری ہوں اور بعض پدری مادری ہوں تو پدری چچا پھوپھی میراث نہیں لیں گے پس اگر میت کا ایک مادری چچا یا ایک پھوپھی ہوں تو مال چھ حصوں میں تقسیم کریں گے اور اس میں سے ایک حصہ مادری چچا یا پھوپھی کو دیا جائے گا اور باقی پدری مادری چچا اور پھوپھی کو ملے گا اور پدری مادری چچا پدری مادری پھوپھی کے دو برابر لے گا اور اگر مادری چچا بھی ہے اور پھوپھی بھی تو مال تین حصوں میں تقسیم کریں گے ۔ دو حصے پدری مادری چچا و پھوپھی کو ملے گا اور چچا پھوپھی کے دو برابر لے گا اور ایک حصہ مادری پھوپھی و چچا کو ملے گا اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ تقسیم کرتے وقت آپس میں مصالحت کرلیں۔
    5.اگر میت کا وارث صرف ایک ماموں یا ایک خالہ ہو تو مال اسی کو ملے گا اور اگر ماموں بھی اور خالہ بھی اور وہ سارے پدری مادری ہوں یا پدری یا مادری تو مال ان کے درمیان برابر تقسیم ہوگا اور احتیاطاً وہ تقسیم کرتے وقت آپس میں مصالحت کرلیں۔
    6.اگر میت کا وارث صرف ایک مادری ماموں یا خالہ ہو اور پدری مادری ماموں اور خالہ ہو اور پدری ماموں اور خالہ ہو تو پدری ماموں و خالہ تو ارث نہیں لیں گے اور مال چھ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ اس میں سے ایک حصہ مادری ماموں یا خالہ کو اور بقیہ پدری مادری ماموں اور خالہ کو ملے گا اور وہ آپس میں مساوی تقسیم کرلیں گے۔
    7.اگر میت کا وارث صرف پدری ماموں خالہ اور مادری خالہ اور پدری مادری ماموں اور خالہ ہوں تو صرف پدری کو میراث نہیں ملے گی اور باقیوں کو مال تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہئیے ۔ ان میں سے ایک حصہ مادری ماموں خالہ لیں گے اور وہ اسے برابر تقسیم کریں اور بقیہ پدری مادری ماموں خالہ لے کر اسے مساوی طور پر تقسیم کرلیں۔
    8.اگر میت کا وارث ایک ماموں یا ایک خالہ اور ایک چچا یا ایک پھوپھی ہو تو مال تین حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک حصہ ماموں یا خالہ کا اور بقیہ پھوپھی یا چچا کا ہوگا۔
    9.اگر میت کا وارث ایک ماموں یا ایک خالہ ہو اور پھوپھی و چچا دونوں ہوں تو اگر چچا و پھوپھی پدری مادری یا صرف پددری ہوں تو مال تین حصوں میں تقسیم ہوگا۔ ایک حصہ ماموں یا خالہ لے جائیں گے اور بقیہ میں سے دو حصے چچا کے اور ایک حصہ پھوپھی کا ہوگا تو اس بنا پر اگر مال کے نو حصے کئے جائیں تو تین حصے ماموں یاخالہ کو دیں گے اور چار حصے چچا کو اور دو حصے پھوپھی کو ملیں گے۔
    10.اگر میت کا وارث ایک ماموں اور ایک خالہ ہو اور ایک مادری چچا یا ایک پھوپھی ہو اور پدری مادری چچا و پھوپھی یا صرف پدری ہوں تو مال تین حصوں میں تقسیم کریں گے اس میں سے ایک حصہ ماموں یاخالہ کو دیں گے اور بقیہ دو حصوں کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس میں سے ایک حصہ چچا یا پھوپھی مادری کو بقیہ چچا اور پھوپھی پدری مادری یا صرف پدری کو دیا جائے گا اور چچا پھوپھی کے دو برابر لے گا۔ اس بنا پر اگرمال کو نو حصوں میں تقسیم کریں تو اس میں سے تین حصے ماموں یا خالہ کے اور ایک حصہ مادری چچا یا پھوپھی کا اور پانچ حصے باقی مادری پدری یا صرف پدری چچا اور پھوپھی کو ملیں گے۔
    11.اگر میت کا وارث ایک ماموں یا ایک خالہ اور چچا و پھوپھی مادری اور چچا و پھوپی پدری مادری یا صرف پدری ہو تو مال تین حصوں میں تقسیم ہوگا۔ ایک حصہ ماموں یا خالہ لے جائیں گے اور بقیہ دو حصوں کو تین حصوں میں ممنقسم کیاجائے گا۔ اس میں سے ایک حصہ مادری چچا و پھوپھی کو دیں جو کہ احتیاط واجب کی بنا پر آپس میں مصالحت کریں گے۔ اور دو باقی حصے پدری مادری یا صرف پدری چچا و پھوپھی کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ چچا پھوپھی کے دو برابر لے گا۔ اس بنا پر مال نو حصوں میں تقسیم ہو اس میں سے تین حصے ماموں یا خالہ کے ہیں اور دو حصے مادری چچا و پھوپھی کے اور چار حصے پدری مادری یا صرف پدری چچا کے۔
    12.اگر میت کے وارث چند ماموں اور چند خالائیں ہوں کہ جو سب پدری مادری یا صرف پدری یا صرف مادری ہوں اور اس کے چچا و پھوپھی بھی ہوں تو مال کے تین حصے ہوں گے ۔ دو حصے تو جس طرح گزشتہ مسئلہ میں بیان ہوچکا ہے چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے اور ایک حصہ ماموں اور خالائیں آپس میں مساوی طور پر تقسیم کرلیں گے۔
    13.اگر میت کے وارث مادری ماموں یا خالہ اور کئی پدری مادری یا صرف پدری ماموں اور خالہ ہوں اور چچا و پھوپھی بھی ہو تو مال کے تین حصے ہوں گے اور ان میں سے دو حصے اس طریقہ پر جو پہلے بیان کیا جا چکا ہے چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے پس اگر میت کا ایک ماموں یا ایک مادری خالہ ہے تو ان کے بچے ہوئے ایک حصہ کو چھ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ان کا ایک حصہ مادری ماموں یا خالہ کو دیں گے اور باقی پانچ حصوں کو پدری و مادری ماموں اور خالہ کو دیں گے اور وہ برابر تقسیم کرلیں گے اور اگر چند مادری ماموں یا چند مادری خالائیں ہوں یا مادری ماموں بھی ہو اور مادری خالہ بھی تو وہ اس ایک حصہ کو تین حصوں میں بانٹ لیں گے ان میں سے ایک حصہ مادری ماموں خالائیں برابر تقسیم کرلیں گے اور بقیہ مادری پدری یا صرف پدری ماموں خالہ کو ملے گا کہ جو اسے برابر تقسیم کریں گے۔
    14.اگر میت کے چچا پھوپھی اور ماموں اور خالہ نہ ہوں تو جتنا حصہ چچا اور پھوپھی کو ملنا تھا وہ ان کی اولاد کو ملے گا اور جتنا حصہ ماموں اور خالہ کو ملنا چاہیے وہ ان کی اولاد کو ملے گا۔
    15.اگر میت کا وارث اس کے باپ کے چچا پھوپھی اور ماموں خالہ ہوں اور اس کی ماں کے چچا پھوپھی اور ماموں خالہ بھی ہوں تو مال کے تین حصے ہوجائیں گے ۔ ایک حصہ اس کی ماں کے چچا پھوپھی اور ماموں خالہ کو بطور مساوی ملے گا۔ البتہ احتیاط واجب یہ ہے کہ میت کی ماں کے مادری چچا پھوپھی آپس میں مصالحت کریں اور دو باقی حصے تین حصوں میں بٹ جائیں گے۔ ان میں سے ایک میت کے باپ کے ماموں خالہ لے کر آپس میں برابر تقسیم کرلیں گے۔ اور بقیہ دو حصے میت کے باپ کے چچا اور پھوپھی کو ملیں گے اور چچا پھوپھی کے دو برابر لے گا۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔