جمع صلاتین کا کیا جواز ہے ؟

سوال

معصومین نمازوں کو ۵ مرتبہ اپنے مخصوص وقت میں ادا فرماتے تھے ، تو ہم کیوں ملا کے پڑھتے ہیں ؟

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    روایات میں ملتا ہے کہ پیغمبر نے متعدد مقامات میں ظہرین اور مغربین کو ایک ساتھ پڑھایا ہے ، جیسے عرفہ میں مزدلفہ میں اسی لئے مسلمانوں کے تمام مکتب فکر اجماعی طور سے ان دو مقامات میں جمع صلاتین کو مانتے ہیں ۔

    ان دو مقامات کے علاوہ بھی حنبلی ، مالکی اور شافعی مکتب فکر میں حالت سفر اور بعض ہنگامی حالات میں بھی جمع صلاتین جائز ہے ۔

    لہذا اصل جمع صلاتین میں بھی بحث نہیں ہے بلکہ بحث وہاں ہے کہ کیا عام حالات میں بھی جمع صلاتین جائز ہے یا نہیں ، اہل سنت حضرات کہتے ہیں نہیں ؛ جبکہ شیعہ حضرات جمع صلاتین کو عام حالات میں بھی جائز مانتے ہیں ۔ اور اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ صرف سفر اور کوئی ہنگامی حالات بلکہ عام حالات میں بھی دونوں نمازوں کو اکٹھا پڑھایا ہے ۔ اس سلسلہ میں خود اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی حدیثیں موجود ہیں ؛ اصل روایات حوالے ساتھ پیش کی جارہی ہیں :

    ۱۔ احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں جابر بن زید سے روایت نقل کرتے ہیں :

    اخبرنی جابر بن زید انّه سمع ابن عبّاس یقول: صلِّیت مع رسول الله صلی الله علیه [و آله] و سلّم ثمانیاً جمیعاً و سبعاً جمیعاً ۔ ۔ ۔

    جابر ابن زید کہتا ہے کہ میں ابن عباس سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے : میں نے رسول اللہ کے ساتھ آٹھ رکعتوں کو ملا کے اور سات رکعتوں کو ملا کے پڑھا ہے ۔ ۔ ۔

    مسند، احمد بن حنبل، ج1، ص 221

    ۲۔ اسی طرح احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں عبدالله بن شقیق سے روایت نقل کرتے ہیں :

    خطبنا ابن عبّاس یوماً بعد العصر حتّی غربت الشّمس و بدت النّجوم و علّق النّاس ینادونه الصّلوه و فی القوم رجل من بنی تمیم فجعل یقول: الصّلوه الصّلوه: قال فغضب قال اتعلّمنی بالسّنه؟ شهدت رسول الله صلی الله علیه [و آله] و سلّم جمع بین الظّهر و العصر، و المغرب و العشاء. قال عبدالله فوجدت فی نفسی من ذلک شیئاً فلقیت ابا هریره فسالته فوافقه».

    ایک نماز عصر کے بعد ابن عباس خطبہ دے رہے تھے کہ سورج ڈوب گیا اور تارے بھی دکھنے لگے تو لوگوں نے نماز کے لئے شور مچانا شروع کردیا ان میں سے بنی تمیم کا ایک شخص تھا جو بار بار نماز نماز کہے جا رہا تھا ۔ تو ابن عباس کو غضب آ گیا اور کہا کہ کیا تم مجھ کو سنت بتاوگے ؟ میں شاہد ہوں کہ رسول اللہ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھایا ہے ۔ تو عبد اللہ بن شقیق کہتا ہے کہ مجھے دل میں یہ بات ذرا عجیب سی لگی تو میں ابوہریرہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی ۔

    مسند، احمد بن حنبل، ج1، ص 251

    ۳۔ مالک بن انس اپنی کتاب موطّا میں لکھتے ہیں :

    صلّی رسول الله [صلی الله علیه و آله و سلم] الظّهر و العصر جمیعاً، والمغرب و العشاء جمیعاً فی غیر خوفٍ و لا سفرٍ ۔

    رسول اللہ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھائی ہے جب کہ نہ خوف تھا نہ سفر ۔

    موطاً مالک، کتاب الصلوه، ط 3 بیروت، سال 1403، ص 125، ح 178

    صحیح مسلم، ج 2، ص 151، ط بیروت، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر.

    ۴۔ مالک بن انس، اپنی کتاب موطّا میں معاذ بن جبل سے نقل کرتے ہیں :

    فکان رسول الله [صلی الله علیه و آله و سلم] یجمع بین الظّهر و العصر، والمغرب و العشاء ۔

    رسول اللہ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔

    موطاً مالک، کتاب الصلوه، ط 3 بیروت، سال 1403، ص 134، ح 176

    صحیح مسلم، ط مصر، ج 2، ص 152

    ۵۔ مالک بن انس اپنی کتاب موطّا میں نافع سے اور وہ عبدالله بن عمر سے نقل کرتے ہیں :

    کان رسول الله [صلی الله علیه و آله و سلم] اذا عجل به السِّیر یجمع بین المغرب و العشاء

    جب رسول اللہ کو کہیں جانے میں جلدی ہوتی تھی تو آپ مغرب و عشاء ملا کے پڑھتے تھے ۔

    موطاً مالک، کتاب الصلوه، ط 3 بیروت، سال 1403، ص 125، ح 177

    ۶۔ مالک بن انس کتاب موطّا میں ابوهریره سے نقل کرتے ہیں :

    ان رسول الله صلیّ الله علیه [و آله] و سلّم کان یجمع بین الظهّر و العصر فی سفره الی تبوک

    رسول اللہ نے تبوک کے سفر میں ظہر و عصر ملا کے پڑھایا کرتے تھے ۔

    موطاً مالک، کتاب الصلوه، ط 3 بیروت، سال 1403، ص 122، ح 175

    ۷۔ مالک بن انس موطّا میں علی بن الحسین علیه السلام سے نقل کرتے ہیں :

    کان رسول الله صلی الله علیه [وآله] و سلّم اذا اراد ان یسیر یومه جمع بین الظّهر و العصر و اذا اراد ان یسیر لیله جمع بین المغرب و العشاء

    جب بھی رسول اللہ دن میں کہیں جانے کا ارادہ رکھتے تو ظہر و عصر ملا کے پڑھتے اور اگر رات میں کہیں جانے کا ارادہ رکھتے تو مغرب و عشاء ملا کے پڑھا کرتے تھے ۔

    موطأ مالک، کتاب الصلوه، ص 125، ح 181

    ۸۔ زرقانی نے جمع صلاتین کی وجہ بیان کرتے ہوئے طبرانی اور ابن مسعود سے نقل کیا ہے :

    جمع النَّبی صلی الله علیه [و آله] و سلّم بین الظّهر و العصر و بین المغرب و العشاء، فقیل له فی ذلک، فقال: صنعت هذا لئلاّ تحرج امتی

    رسول اللہ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کے پڑھا تو اس سلسلہ میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : میں ایسا اس لئے کیا تا کہ میری امت کو زحمت نہ ہو ۔

    شرح زرقانی بر موطّأ مالک، ط مصر، ج اول، باب «الجمع بین الصلاتین فی الحضر و السفر»، ص 294

    ۹۔ مسلم بن حجاج، اپنی کتاب صحیح مسلم میں ابوزبیر اور سعید بن جبیر کے ذریعہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :

    صلّی رسول الله صلی الله علیه و [آله] و سلّم الظّهر و العصر جمیعاً بالمدینه فی غیر خوفٍ و لا سفرٍ

    رسول اللہ نے ظہر و عصر مدینہ میں ملا کے پڑھایا نہ خوف تھا نہ سفر ۔

    صحیح مسلم، ج2، ص 151، «باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر»

    ابن عباس اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایسا اس لئے کیا کہ امت کو دشواری نہ ہو ۔

    صحیح مسلم، ج2، ص 151، «باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر»

    ۱۰۔ مسلم بن حجاج، اپنی کتاب صحیح مسلم میں سعید بن جبیر کے ذریعہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :

    جمع رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم بین الظّهر و العصر، المغرب و العشاء فی المدینه، من غیر خوفٍ و لا مطرٍ

    رسول اللہ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو مدینه میں ہی ملا پڑھا نہ خوف تھا نہ بارش ۔

    صحیح مسلم، ج2، ص 152، «باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر»

    اس حدیث کے بعد سعید بن جبیر نے ابن عباس سے پوچھا کہ رسول اللہ نے ایسا کیوں کیا تو ابن عباس نے فرمایا : آپ اپنی امت کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے ۔

    صحیح مسلم، ج2، ص 151، «باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر»

    ۱۱۔ بخاری نے بھی اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلہ میں مکمل ایک باب قائم کیا ہے بنام «باب تأخیر الظُّهر الی العصر» اسی باب میں یہ حدیث موجود ہے :

    انّ النّبیّ صلّی الله علیه [و آله] و سلّم صلّی بالمدینه سبعاً و ثمانیاً، الظّهر و العصر، و المغرب و العشاء

    رسول اللہ نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعت کو ملا کے پڑھا ہے ۔

    صحیح بخاری، ج1، ص 110، کتاب الصلوه، باب «تأخیر الظهر الی العصر» ط مصر، نسخه امیریّه، سنه 1314ه

    ۱۲۔ بخاری دوسری جگہ ابن عمر ، ابو ایّوب اور ابن عبّاس سے نقل کرتے ہیں :

    صلّی النّبیّ صلّی الله علیه و [آله] و سلّم المغرب و العشاء

    رسول اللہ نے مغرب و عشاء ساتھ میں پڑھا ۔

    صحیح بخاری، کتاب الصلوه، باب ذکر العشاء، ص 113، ط مصر، سنه 1312 ه.

    ہو سکتا ہے کوئی کہے کہ اس روایت میں ساتھ میں ملا کے پڑھنے کا تو ذکر نہیں ہے ، تو اس کا جواب بہت واضح ہے یہ تین بڑے صحابہ یہ تو نہیں بتارہے ہیں کہ رسول اللہ نے مغرب و عشاء پڑھی ، ظاہر سی بات ہے یہ لوگ رسول کے نمازی ہونے کی تو گواہی نہیں دے رہے ہیں ، بلکہ نماز کی کیفیت بیان کر رہے ہیں تو ملا کے پڑھنے کی کیفیت قرینہ حالیہ سے سمجھ میں آ رہی ہے ۔

    اس سلسلہ میں حدیثیں بہت ہیں لیکن ہم تبرکا ۱۲ حدیثوں پر اکتفاء کرتے ہیں ۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔