خاک پر سجدہ کرنے کا فلسفہ کیا ہے؟

سوال

خاک پر سجدہ کرنے کا فلسفہ کیا ہے؟ اور شیعہ کیوں تربت کربلا پر سجدہ کرتے ہیں؟

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    جہالت یا دشمنی کی وجہ سے شیعوں کے خلاف دشمنوں کی طرف سے ہونے والا ایک زبردست الزام اور پروپیگنڑا خاک پر سجدہ کرنے کا مسئلہ ہے- جبکہ اگر اس مسئلہ کے بارے میں ، حقیقت پسندانہ، انصاف پر مبنی اور ہر قسم کے تعصب سے بالاتر تحقیق کی جائے، تو اس کا نتیجہ بالکل اس کے برعکس نکلے گا جس کا شیعوں پر الزام لگایا جاتا ہے، کیونکہ شیعہ خاک پر سجدہ کرتے ہیں ، نہ خاک کے لئے- سجدہ دو قسم کا ہوتا ہے، ایک کسی چیز کے لئے سجدہ اور دوسرا کسی چیز پر سجدہ-
    بیشک سجدہ کی پہلی قسم شرک کی حالات میں سے ایک حالت ہے اور شیعہ اس قسم کے سجدہ کو حرام جانتے ہیں، کیونکہ اس قسم کا سجدہ غیر خدا کے لئے ہوتا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے زیادہ برہان و دلیل کی ضرورت نہیں ہے- اس سلسلہ میں ہم آپ کو شیعہ علماء کے فتاویٰ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں-
    مسئلہ اور موضوع کی حقیقت واضح ہونے کے لئے ہم اس پر آگے بحث و تحقیق کریں گے-
    سجدہ کی تعریف:
    لغت میں سجدہ کے معنیٰ فروتنی اور انکساری ہے شرع مقد میں اس کے معنی اپنی پیشانی کے ایک حصہ کو اس حالت میں زمین یا کسی چیز پر رکھنا ہے کہ پیشانی اور اس چیز کے درمیان کوئی فاصلہ یا چیز حائل نہ ہو جس پر سجدہ کیا جاتا ہے- اس کی دلیل ایک روایت ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ: ” سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی کو زمین پر رکھنا چاہئیے اور تیزی کے ساتھ ( صرف کوے کی زمین پر چونچ مارنے کے مانند [1] )زمین سے چھونے پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے-
    اس کے علاوہ اس سلسلہ میں روایت نقل کی گئی ہے کہ: ” ہم نے رسول خدا ( ص ) کی خدمت میں اپنے ہاتھ اور پیشانی کے بارے میں مکہ اور مدینہ کی زمین کی حرارت اور گرمی کے بارے میں شکایت کی اور رسول خدا ( ص ) نے ہماری شکایت کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا [2] –”
    تمام فقہا اور علماء کے مطابق سجدہ واجب ہے، کیونکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے: ” ایمان والو؛ رکوع کرو، سجدہ کرو۔ ۔ ۔ ۔ [3] ”
    مسئلہ کا فقہی ہونا:
    واضح ہے کہ یہ موضوع ( سجدہ ) فقہی مسائل میں سے ہے اور یہ کلامی مسائل میں سے نہیں ہے، کیونکہ سجدہ کا تعلق اور رابطہ مکلف کے فعل سے ہے- فقہی مسائل میں ( شیعوں اور سنیوں کے ہاں )بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں- اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ خود مذہب اہل سنت چار مذاہب میں تقسیم ہوتا ہے اور یہ چار مذاہب بہت سے فرعی اور فقہی مسائل میں آپس میں بہت سے اختلاف رکھتے ہیں [4] –
    سجود کے باب کی روایات:
    سجود کے باب میں نقل کی گئی روایتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
    ۱۔ وہ روایتیں، جو زمین پر سجدہ کرنے کی تاکید کرتی ہیں-
    ۲۔ وہ روایتیں جو گھاس ، جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں-
    ۳۔ وہ روایتیں، جو پیراہن ( کپڑے ) روئی یا اون پر سجدہ کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں [5] –
    الف- زمین پر سجدہ کرنے کی تاکید کرنے والی روایتیں:
    اس سلسلہ میں کافی روایتیں موجود ہیں جو احادیث کی کتابوں میں مختلف عبارتوں میں نقل ہوئی ہیں- ہم یہاں پر ان میں سے نمونہ کے طور پر چند روایتوں کو پیش کرتے ہیں:
    ۱۔ ” جعلت لی الارض مسجدا و طھوراً ” ” زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور پاک کرنے والی چیز قرار دی گئی ہے- یہ روایت کتاب ” مسلم” میں یوں نقل ہوئی ہے:
    ” پوری زمین ہمارے لئے سجدہ کرنے کی جگہ قرار دی گئی ہے اور اس کی خاک ہمارے لئے پاک کرنے والی چیز ہے، جبکہ پانی دستیاب نہ ہو-”
    سنن ترمزی میں یوں آیا ہے ” تمام زمین میرے لئے مسجد اور طہور قرار دی گئی ہے-”
    بیہقی کے کلام میں یوں نقل کیا گیا ہے: ” زمین میرے لئے طہور ( پاک کرنے والی ) اور مسجد ( سجدہ کرنے کی جگہ ) قرار دی گئی ہے-”
    بیہقی کے کلام میں یہ عبارت بھی پائی جاتی ہے : ” زمین میرے لئے پاک اور مسجد قرار دی گئی ہے، جہاں پر نماز کا وقت آئے میں نماز پڑھتا ہوں، جس طرح بھی ہو [6] -”
    ۲۔ ابوذر نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” زمین تیرے لئے سجدہ کرنے کی جگہ ہے- پس جہاں پر بھی نماز کا وقت پہنچے، نماز کو پڑھنا [7] -”
    ۳۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر ( ص ) نے پتھر پر سجدہ کیا [8] -”
    ۴۔ ابو سید خدری نقل کرتے ہیں: ” میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی اور بینی پر مٹی کے آثار تھے [9] -”
    ۵۔ جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں: ” میں رسول خدا ( ص ) کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا، گرمی اور حرارت کی شدت کی وجہ سے میرے ہاتھ میں پتھر کا ایک ٹکڑا تھا تاکہ سرد ہو جائے اور میں اس پر سجدہ کروں-”
    ۶۔ انس بن مالک کہتے ہیں: ” ہم سخت گرمی میں پیغمبر اکرم ( ص ) کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، ہم میں سے ہر ایک، ایک پتھر اٹھا کے ہاتھ میں رکھتا تھا تاکہ یہ پتھر ٹھنڈا ہو جائے، جب یہ ٹھنڈا ہوتا تھا، اس کو زمین پر رکھ کر اس پر سجدہ کرتے تھے [10] -”
    ۷۔ عمر بن خطاب کہتے ہیں: ” ہم ایک برسات کی رات کو فجر کی نماز کے لئے گھر سے نکلے، چونکہ زمین پر کیچڑ تھی، اس لئے ہم میں سے ہر ایک نے کچھ پتھر جمع کئے اور مسجد کے صحن میں رکھ کر ان پر نماز پڑھی، جب پیغمبر ( ص ) اس مسئلہ کے بارے میں متوجہ ہوئے تو آپ ( ص ) نے فرمایا: کیا اچھی چیز ہے، اس کے بعد پتھر پر سجدہ کر کے نماز پڑھنا شروع ہو گیا [11] -”
    ۸۔ عیاض بن عبد اللہ قرشی نقل کرتے ہیں: ” جب پیغمبر ( ص ) نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے سر پر رکھے عمامہ کے ساتھ سجدہ کر رہا ہے، آپ ( ص ) نے اس سے اشارہ فرمایا کہ عمامہ کو پیچھے ہٹا کر پیشانی کو سجدہ کی جگہ پر رکھیں [12] -”
    یہ ان بیشمار روایتوں سے چند نمونے ہیں، جن میں خاک اور زمین پر سجدہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے [13]-
    بیہقی کہتے ہیں: ” ۔ ۔ ۔ ۔ اگر سجدہ کپڑے اور لباس پر جائز ہوتا، تو اس کی طرف روایتوں میں اشارہ ہوتا، کیونکہ اس پر سجدہ کرنا، پتھر اٹھا کر اسے ٹھنڈا کرکے اس پر سجدہ کرنے کی بہ نسبت آسان تر تھا [14] –
    ب- وہ روایتیں، جو کسی عزر کے بغیر زمین کے علاوہ دوسری چیزوں پر سجدہ کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں:
    ۱۔ انس بن مالک نقل کرتے ہیں کہ ان کی جدّہ ( ملیکہ ) نے رسول خدا ( ص ) کے لئے ایک کھانا پکایا اور آپ (ص ) کو دعوت دیدی- پیغمبر ( ص ) نے دعوت قبول فرمائی اور وہ کھانا تناول فرمانے کے بعد فرمایا: ” اٹھئے اور میرے ساتھ نماز پڑھئے-” انس بن مالک کہتے ہیں : ” میں اٹھا اور چٹائی، جو زمانہ گزرنے کے ساتھ سیاہ ہو چکی تھی، پر پانی چھڑک کر اسے مرطوب کیا- پیغمبر ( ص ) اس پر کھڑے ہوئے- میں آنحضرت ( ص ) کے پیچھے اور میرے پیچھے وہ بوڑھی عورت ( یعنی میری جدہ ) نماز کے لئے کھڑی ہو گئی [15] –
    اس کے علاوہ انس بن مالک سے ایک اور روایت اس مضمون سے نقل ہوئی ہے: ” میری پھپھیوں میں سے ایک نے پیغمبر ( ص ) کے لئے کھانا پکایا اور آنحضرت ( ص ) کی طرف مخاطب ہو کر کہا: ” میں چاہتی ہوں کہ آپ میرے گھر میں کھانا تناول فرمائیے اور وہاں پر نماز پڑہیں؛ انس کہتے ہیں: ” پیغمبر ( ص ) تشریف لاے، ہمارے گھر میں ایک بڑی چٹائی تھی، آنحضرت ( ص ) نے حکم دیا اور ہم نے اس چٹائی کو کمرے کے ایک کونے میں پھیلایا اور اس پر پانی چھڑکایا اور پھر جاڑو دے دیا، اس کے بعد پیغمبر ( ص ) اس پر نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ ( ص ) کے پیچھے نماز پڑھی [16] -”
    اس کے علاوہ انس بن مالک نے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے: ” ام سلیم نے رسول خدا ( ص ) سے درخواست کی تاکہ اس کے گھر تشریف لا کر نماز پڑھیں اور وہ اس جگہ کو ہمیشہ کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے؛ رسول خدا ( ص ) نے ام سلیمہ کی دعوت قبول کی، اور اس کے گھر تشریف لائے، وہاں موجود ایک چٹائی کو پانی سے مرطوب کیا اور آنحضرت ( ص ) نے اس پر نماز پڑھی، ام سلیمہ نے پیغمبر ( ص ) کے ساتھ نماز پڑھی اور اس جگہ کو اپنے لئے نماز کی جگہ قرار دیا [17] -”
    ۲۔ ابن عباس نقل کرتے ہیں: ” رسول خدا ( ص ) ایک چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے [18] -”
    ۳۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: ” میں پیغمبر ( ص ) کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا کہ آنحضرت ( ص ) چٹائی پر نماز پڑھتے تھے اور اسی چٹائی پر سجدہ کرتے تھے [19] -”
    ۴۔ پیغمبر ( ص ) کی بیوی میمونہ نقل کرتی ہیں: ” رسول خدا ( ص ) نماز کی حالت میں تھے اور میں آپ ( ص) کے پاس اس طرح تھی کہ آپ ( ص ) کا پیراہن مجھ سے لگ جاتا تھا، جب آپ ( ص ) سجدہ بجا لاتے تھے، چٹائی پر نماز پڑھتے تھے [20] -”
    اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں، خلاصہ کے پیش نظر ہم ان ہی روایتوں پر اکتفا کرتے ہیں-
    ج۔ وہ روایتیں جو عزر کی حالت میں زمین کے علاوہ دوسری چیزوں پر سجدہ کرنا جائز بتاتی ہیں:
    اس سلسلہ میں ہم انس بن مالک کی صرف ایک حدیث بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ انس کہتے ہیں: ” ہم رسول خدا ( ص ) کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے- اگر ہم میں سے کوئی گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی پیشانی کو زمین پر نہیں رکھ سکتا تھا، تو ہم اپنے پیراہن کو زمین پر پھیلاتے تھے اور اس پر سجدہ کرتے تھے-”
    یہ روایت اہل سنت کی مختلف کتابوں میں، من جملہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ اور عبارتوں میں نقل ہوئی ہے [21] -”
    ہر محقق اور تلاش و کوشش کرنے والا ان احادیث کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد واضح طور پر یہ نتیجہ حاصل کر سکتا ہے کہ یہ تمام روایتیں اس مسئلہ پر متمرکز ہیں کہ پہلے مرحلہ میں سجدہ خاک پر کیا جانا چاہئیے ، اس کے بعد زمین سے اگنے والی ان چیزوں پر کیا جانا چاہئے جو کھا نے اور پینے میں استعمال نہیں ہوتی ہیں اور اس کے بعد ( اضطرار اور عزر کی حالت میں ) پیراہن ( کپڑے ) پر سجدہ کیا جا سکتا ہے-
    اس لئے ان روایات کے مطابق مکتب اہلبیت۴ کے شاگرد علماء اور فقہا اہل بیت علیہم السلام کی روایتوں پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں: ” واجب ہے کہ نماز کی حالت میں سجدہ کی جگہ زمین یا زمین سے اگنے والی وہ چیزیں ہوں جو کھانے اور پہننے میں استعمال نہیں ہوتی ہیں [22] – ”
    لیکن یہ کہ ہم شیعہ کیوں تھوڑی سی خاک و کیچڑ کو خشک کر کے اسے سجدہ گاہ بنا کر اس پر سجدہ کرتے ہیں؟ اس کی کچھہ وجوہات ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
    ۱۔ پاک اور طاہر ہونے کے سلسلہ میں اطمینان حاصل کرنے کے لئے ہے، کیونکہ سجدہ کرنے کی جگہ کی شرائط میں سے ایک اس کا پاک ہونا ہے- اس کے علاوہ اس کے مباح ہونے کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لئے ہے، کیونکہ سجدہ کرنے کی جگہ کی شرائط میں سے ایک اس کا مباح ہونا ہے-
    ۲۔ چونکہ آج کل گھروں اور مسجد میں فرش بچھا ہوا ہوتا ہے اور خاک مہیا نہیں ہوتی ہے، اس لئے ہم سجدہ گاہ پر سجدہ کرتے ہیں-
    تربت امام حسین۴ پر سجدہ کرنے کا فلسفہ:
    اس سوال کے سلسلہ میں کہ، شیعہ کیوں تربت امام حسین۴ یعنی خاک کربلا پر سجدہ کرتے ہیں؟ کہنا چاہئیے:
    ۱۔ شیعہ فقہا میں کسی فقیہ کو نہیں پایا جا سکتا ہے، جو اس بات کا قائل ہو کہ خاک کربلا پر سجدہ کرنا واجب ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہر پاک و مباح خاک پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا- البتہ وہ کہتے ہیں کہ خاک کربلا پر سجدہ کرنا مستحب ہے [23] –
    ۲۔ تربت کربلا پر سجدہ کرنا، خاک پر سجدہ کرنے کا ایک نمونہ ہے اور خاک پر سجدہ کرنے کے صحیح ہونے پر مسلمانوں کا بصورت اجماع اتفاق ہے، لہٰزہ خاک کربلا کو زمین اور خاک سے الگ کرنے کے لئے کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ہے، تاکہ یہ کہا جائے کہ شیعہ کیوں تربت امام حسین علیہ السلام پر سجدہ کرنے کی بہت تاکید کرتے ہیں- حضرت امام سجاد علیہ السلام پہلے امام تھے، جنھوں نے تربت امام حسین۴ پر سجدہ کیا- تمام ائمہ اطہار علیہم السلام تربت امام حسین۴ پر سجدہ کرتے تھے اور اس کے مستحب ہونے کی تاکید فرماتے تھے- چناچہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ” سید الشہدا ۴ کی تربت پر سجدہ کرنا ، سات پردوں کو ہٹاتا ہے [24] -”
    ۴۔ تربت سید الشہداء۴ پر سجدہ کرنے کے رحجان کی دلالت کے بارے میں بہت سی وجوہات ہیں جو اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہیں- مثلاً:
    الف- اعتقادی درس: عمر بن سعد نے، عاشور کے دن فجر کی نماز اپنے لشکر کے ساتھہ با جماعت پڑھی لیکن اسی دن ظہر کو امام حسین علیہ السلام کو شہید کر ڈالا- شیعہ نماز میں تربت امام حسین۴ پر سجدہ کر کے اعلان کرتا ہے کہ وہ عمر بن سعد اور اس کے حاکم کی جیسی مردہ اور بے روح نماز نہیں پڑھتا ہے بلکہ شیعہ کی نماز، امام حسین۴،ان کے نانا اور باپ کے مانند ہے- یہ وہی چیز ہے جو شیعوں میں اہل بیت۴ کی ولایت کے مفہوم کو مستحکم و پائدار بنا دیتی ہے-
    اس وجہ سے ائمہ اطہار۴ نے تربت امام حسین ۴ پر سجدہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے، یعنی تربت امام حسین۴ پر سجدہ کرنا وہی بارگاہ الٰہی میں خدا کے لئے اس کے اولیاء کی پیروی کرتے ہوئے تسلیم و خضوع ہے-
    ب۔ تاریخی درس: تاریخ گواہ ہے کہ بعض لوگوں نے انتھک کوشش کی ہے تاکہ غدیر کے سبق— جس میں حضرت علی۴ کی، امام اور خلیفہ کے عنوان سے بیعت کی گئی— اور بنی امیہ کے زمانہ میں رونما ہونے والے حادثہ عاشورا کو نابود کر کے رکھہ دیں-
    تربت امام حسین۴ ، عاشور کے دن بنی امیہ کے ظلم و بربریت کی ایک زندہ تاریخی سند ہے- جبکہ ظالموں نے پوری تاریخ میں آج تک، سر توڑ کوشش کی ہے تاکہ غدیر اور عاشور کی تعلیمات اور درس کو نابود کر کے رکھدیں-
    لیکن ائمہ اطہار و اہل بیت علیہم السلام نے عاشورائے حسینی کے حادثہ کو مرثیہ خوانی، عزاداری، گریہ و زاری اور زیارت وغیرہ کے ذریعہ لوگوں کے دل و جان میں مستحکم و پائیدار بنا کر ان کے اور قیام عاشورا کے درمیان رابطہ برقرار کیا ہے- اس طرح تربت امام حسین۴ کے مسئلہ کی اہمیت اور تاکید واضح ہو جاتی ہے-
    ج- جہاد و شہادت کا درس: تربت امام حسین۴ ایک ایسی چیز ہے جو اکثر مسلمانوں میں انقلاب و جہاد کے جوش و جزبہ کو ابھار سکتی ہے اور یہ وہی چیز ہے، جس کی امت اسلامیہ کو ضرورت ہے- خاص کر آج کی دنیا میں، جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں اور اسلامی معاشرہ مختلف جنگوں سے دوچار ہے- تربت امام حسین۴ سے رابطہ برقرار کرنا خاک کے ایک ٹکڑے سے رابطہ نہیں ہے بلکہ ایک متحرک طاقت اور جہاد و انقلاب کے مفہوم سے واسطہ اور رابطہ برقرار کرنا ہے-
    اس کے علاوہ تربت امام حسین۴ سے ہمیں گوناگوں اخلاقی، سیاسی، عقیدتی اور دینی سبق حاصل ہوتے ہیں- اس سلسلہ میں مفصل بحث و تحقیق کی گئی ہے، جسے امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور قیام سے مربوط کتابوں میں پایا جا سکتا ہے [25] -”
    آخر پر ہم کہتے ہیں کہ: شیعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور آپ ( ص ) کی سنت اور طریقہ کار اور آپ ( ص ) کے قابل یقین افعال و کردار پر پابند رکھہ کر اور دین میں مشکوک چیزوں، جیسے عزر کے بغیر پیراہن اور فرش پر سجدہ کرنے سے پرہیز کر کے کونسا گناہ کیا ہے؟
    اس موضوع کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں، جن میں کھانے اور پہننے کی چیزوں پر سجدہ کرنے کی ممانعت کے فلسفہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک ہشام بن حکم کی مندرجہ ذیل روایت ہے:
    ہشام کہتے ہیں کہ: میں نے امام صادق۴ سے پوچھا: ” مہربانی کر کے ہمیں ان چیزوں کے بارے میں مطلع فرمائیے، جن پر سجدہ کرنا جائز ہے اور جن پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے-” امام صادق۴ نے فرمایا: ” زمین اور زمین سے اگنے والی چیزوں—جو کھانے اور پہننے میں استعمال نہیں ہوتی ہوں— کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ جائز نہیں ہے-”
    ہشام کہتے ہیں: ” میں نے عرض کی : میری جان آپ پر قربان ہو، اس امر کی علت کیا ہے؟ ” امام۴ نے فرمایا: ” کیونکہ سجدہ خدا کے لئے خضوع ہے، لہٰزا سزاوار نہیں ہے کہ کھانے اور پہننے کی چیزوں پر سجدہ کیا جائے، کیونکہ لوگ کھانے اور پہننے کی چیزوں کے بندے ہوتے ہیں، جبکہ سجدہ کرنے والا اپنے سجدہ میں خدا کی عبادت اور بندگی میں مشغول ہوتا ہے، پس سزاوار نہیں ہے کہ وہ اپنی پیشانی کو دنیا کے مغرور بندوں کے مادی معبود پر رکھے- خاک پر سجدہ کرنے کی زیادہ فضیلت ہے، کیونکہ اس قسم کا سجدہ خداوند متعال کے تواضع و خضوع کے لئے سزاوار تر ہے [26] –

    ________________________________________
    [1] ابن حبان، صحیحہ، ج 1، ص 264.
    [2] مسلم، صحیح، ج 3، ص 312؛ ابن ماجہ سنن، ج 2، ص 360.
    [3] حج، 77.
    [4] مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاخطہ ہو : الفقہ علی المذاہب الاربعة، الجزیری، عبدالرحمن.
    [5] علامہ امینی، السجود علی التربة الحسینیة، ص 13.
    [6] صحیح البخاری، ج 1، ص 113؛ صحیح مسلم، ج 2، ص 64؛ صحیح النسائی، ج 2، ص 32؛ صحیح ابی داود، ج 2، ص 114؛ السنن الکبری، ج 2، 433، 435.
    [7] صحیح النسائی، ج 2، ص 37.
    [8] حاکم نے اپنی مستدرک میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور ذہبی نے اس کی تصحیح کی ہے ، ج 3، ص 473.
    [9] صحیح البخاری، ج 1، ص 2، 198، 163، 253، 256، 258، 259؛ سنن ابی داود، ج 1، ص 143 – 144؛ السنن 10 لکبری، ج 2، 106.
    [10] السنن الکبری، ج 2، 106.
    [11] سنن ابوداود؛ ج 1، ص 75؛ السنن الکبری، ج 2، ص 440.
    [12] السنن الکبری، ج 2، ص 105.
    [13] مزید معلومات حاصل کرنے حاصل کرنے کے لئے ملاخطہ ہو اس عنوان میں "ما ہی فلسفة السجود علی التربة”؟ سؤال 508 عربی (سایت: 554).
    [14] مسند احمد حنبل، ج 1، ص 321؛ السنن الکبری، ج 2، ص 105.
    [15] بخاری، صحیحہ، ج 1، ص 101؛ صحیح النسائی، ج 2، ص 57.
    [16] ابن ماجہ، سنن، ج 1، ص 255.
    [17] صحیح النسائی، ج 2، ص 57.
    [18] ترمذی، صحیح، ج 2، ص 126.
    [19] صحیح مسلم، ج 2، ص 62، 126.
    [20] بخاری، صحیح، ج 1، ص 101؛ مسلم، صحیح، ج 2، ص 128.
    [21] بخاری، صحیح، ج 1، ص 101؛ مسلم، صحیح، ج 2، ص 109؛ ابن ماجہ، السنن، ج 1، ص 321؛ ابوداود، السنن، ج 1، ص 106.
    [22] ملاخطہ ہو : عروة الوثقی، ج 1، باب السجود، مایصح السجود علیہ.
    [23] ملاخطہ ہو : تحریر الوسیلة، امام خمینی، ج 1، باب مایصح السجود علیہ.
    [24] وسائل الشیعة، ج 6، ص 23.
    [25] عبدالمنعم حسن، بنور فاطمة اہتدیت، ص 203 – 204؛ بہ نقل از الفریفی، سید عبداللہ، التشیع، ص 206
    [26] من لایحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 273.

جواب دیں۔

براؤز کریں۔