خدائی اضلال سے کیا مراد ہے ؟

سوال

خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کا کیا مطلب ہے، کیا خداوند عالم کسی کو گمراہ کر سکتا ہے، اور اگر خدا ہی گمراہ کرتا ہے تو پھر بندہ کو عذاب کس بنیاد پر کرتا ہے ؟

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    ہدایت کے معنی دلالت اور رہنمائی کے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں:
    ۱) ارائة الطریق (راستہ دکھانا)

    ۲) إیصالٌ إلیٰ المطلوبِ (منزل مقصود تک پہنچانا)

    وضاحت:

    کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کو اپنی تمام دقت اور لطف و کرم کے ساتھ راستہ کا پتہ بتاتا ہے، لیکن راستہ طے کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنا خود اس انسان کا کام ہوتا ہے ، اور کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور راستہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔

    انسان پہلے مرحلہ میں صرف قوانین بیان کرتا ہے،اور منزل مقصودتک پہنچنے کے شرائط بیان کردیتا ہے، لیکن دوسرے مرحلہ میں ان چیزوں کے علاوہ سامان سفر بھی فراہم کرتا ہے اور اس میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھی برطرف کردیتا ہے، نیز اس کے مشکلات کو دور کرتاہے اور اس راہ پر چلنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو منزل مقصود تک پہنچنے میں حفاظت بھی کرتا ہے۔

    اگر انسان قرآن مجید کی آیات پر ایک اجمالی نظرڈالے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے ہدایت اور گمراہی کو فعل خدا شمار کیا ہے، اور دونوں کی نسبت اسی کی طرف دی گئی ہے، اگر ہم اس سلسلہ کی تمام آیات کو یکجا کریں تو بحث طولانی ہوجائے گی، لہذا صرف اشارہ ہی کافی ہے:

    وَاللهُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ

    اور خدا جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دےتا ہے۔

    سورہ بقرہ ،آیت ۲۱۳

    وَلَکِنْ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَہْدِی مَنْ یَشَاءُ

    خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچا دیتا ہے۔

    سورہ نحل ، آیت ۹۳

    ہدایت و گمراہی کے حوالہ سے قرآن مجیدمیں بہت سی آیات موجود ہیں۔

    نمونہ کے طور پر:

    سورہ فاطر ، آیت ۸

    سورہ زمر، آیت ۲۳

    سورہ مدثر ، آیت ۳۱

    سورہ بقرہ، آیت ۲۷۲

    سورہ انعام ، آیت ۸۸

    سورہ یونس ، آیت ۲۵

    سورہ رعد ، آیت ۲۷

    سورہ ابراہیم ، آیت ۴

    بلکہ اس کے علاوہ بعض آیات میں واضح طور پر پیغمبر اکرم (ص) سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور خدا کی طرف نسبت دی ہے، جیسے:

    إِنَّکَ لَاتَہْدِی مَنْ اٴَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللهَ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ

    (اے میرے پیغمبر!) آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دےتا ہے۔

    سورہ قصص ،آیت ۵۶

    لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلَکِنَّ اللهَ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ

    اے پیغمبر ! ان کے ہدایت پانے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے، بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔

    سورہ بقرہ ،آیت ۲۷۲

    ان آیات کے عمیق معنی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض افراد ان کے ظاہری معنی پر تکیہ کرتے ہو ئے ان آیات کی تفسیر میں ایسے ”گمراہ“اور راہ ”ہدایت“ سے بھٹکے کہ”جبریہ“ فرقہ کی آتشِ عقا ئد میں جا گرے اور یہی نہیں بلکہ بعض مشہور مفسرین بھی اس آفت سے نہ بچ سکے، اوراس فر قہ کی خطرناک وادی میں پھنس گئے ہیں، یہاں تک کہ ہدایت و گمراہی کے تمام مراحل کو ”جبری“ طریقہ پر مان بیٹھے، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی انھوں نے اس عقیدہ کو خدا کے عدل و حکمت کے منافی دیکھا تو عدل الہی کے ہی منکر ہوگئے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ”جبر“ کے عقیدہ کو مان لیں تو پھر تکالیف و فرائض اور بعثت انبیاء،اورآسمانی کتابوں کے نزول کا کوئی مفہوم ہی نہیں بچتا۔

    لیکن جو افراد نظریہٴ ”اختیار“ کے طرفدار ہیں ،وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی عقل سلیم اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ خداوندعالم کسی کو گمراہی کا راستہ طے کرنے پر مجبور کرے اور پھر اس پر عذاب بھی کرے، یا بعض لوگوں کو ”ہدایت“ کے لئے مجبور کرے اور پھر بلاوجہ ان کو اس کام کی جزا اور ثواب بھی دے، اور ان کو ایسے کام کی وجہ سے دوسروں پر فوقیت دے جو انھوں نے انجام نہیں د یا ہے۔

    لہٰذا انھوں نے ان آیات کی تفسیر کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں بہت ہی دقیق تفسیر کی ہے جو ہدایت و گمراہی کے سلسلے میں بیان ہونے والی تمام آیات سے ہم آہنگ ہے اور بغیر کسی ظاہری خلاف کے بہترین طریقہ سے ان تمام آیات کی تفسیر کرتی ہے، اور وہ تفسیر یہ ہے:

    عام ہدایت یعنی راستہ دکھانا ، یہ تمام لوگوں کے لئے ہے ،اس میں کسی طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے، جیسا کہ سورہ دہر آیت نمبر ۳ میں وارد ہوا ہے: إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا

    یقینا ہم نے اس (انسان) کو راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

    اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر ۵۲ میں پڑھتے ہیں: وَإِنَّکَ لَتَہْدِي إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ

    اور بے شک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرر ہے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق خداوندعالم کی طرف سے ہے کیونکہ انبیاء کے پاس جو کچھ بھی ہوتاہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔

    بعض منحرف اور مشرکین کے بارے میں سورہ نجم آیت نمبر ۲۳ میں بیان ہوا ہے: وَلَقَدْ جَائَہُمْ مِنْ رَبِّہِمْ الْہُدَی

    اور یقینا ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔

    لیکن خاص ہدایت یعنی منزل مقصود تک پہنچانا ، راستہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ،اور ساحل نجات پر پہنچنے تک ہر طرح کی حمایت و حفاظت کرنا،جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بیان ہوا ہے، یہ ہدایت بہت سے قید و شرط کے ساتھ ہے، اور یہ ہدایت ایک ایسے خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، اور اس کے مدمقابل ”ضلالت و گمراہی“ ہے وہ بھی خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔

    قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ

    خدا ا سی طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دے دیتا ہے اور گمراہی صرف انھیں کا حصہ ہے جو فاسق ہیں ۔

    سورہ بقرہ ، آیت ۲۶

    یہاں پر ضلالت و گمراہی کا سرچشمہ، فسق و فجور اور فرمان الٰہی کی مخالفت بیان کی گئی ہے۔

    ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ

    اوراللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ۔

    سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۸

    اس آیت میں ظلم پرتوجہ دلائی گئی ہے اور اس کو ضلالت و گمراہی کا راستہ ہموار کرنے والا بتایا گیا ہے۔

    ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ

    اوراللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا ۔

    سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۴

    یہاں پر کفر کو گمراہی کاسبب قراردیا گیا ہے۔

    ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ

    اللہ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے ۔

    سورہ زمر ، آیت ۳

    اس آیت میں جھوٹ اور کفر کو ضلالت و گمراہی کا پیش خیمہ شمار کیا گیا ہے۔

    نیز ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ

    بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔

    سورہ غافر ، آیت ۲۸

    اس کا مطلب یہ ہے کہ فضول خرچی اور جھوٹ گمراہی کا باعث ہے۔

    نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید نے خدا کی طرف سے ضلالت و گمراہی انھیں لوگوں کے لئے مخصوص کی ہے جن میں یہ صفات پائے جاتے ہوں: ”کفر“ ، ”ظلم“، ”فسق“، ”جھوٹ“، ”فضول خرچی“ اور ”کفران نعمت “۔

    اس طرح کے اعمال اور صفات کچھ خاص اثررکھتے ہیں جو آخرکار انسان میں موثر ہوتے ہیں،اور اس کی عقل، آنکھ اور کان پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اس کو ضلالت و گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، اور چونکہ تمام چیزوں کی خاصیت اور تمام اسباب کے اثرات خدا کے حکم سے ہیں لہٰذا ضلالت و گمراہی کو ان تمام موارد میں خدا کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے، لیکن یہ نسبت خود انسان کے ارادہ و اختیار کی وجہ سے ہے۔

    یہ سب کچھ ضلالت و گمراہی کے سلسلہ میں تھا، اُدھر ”ہدایت“ کے سلسلہ میں بھی قرآن کریم نے کچھ شرائط اور اوصاف بیان کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی بغیر کسی علت اور حکمت الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔

    بعض وہ صفات جن کی وجہ سے انسان ہدایت اور لطف الٰہی کا مستحق ہوتا ہے ؛ درج ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں: یَہْدِي بِہِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ

    جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا ابتاع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انھیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے ۔

    سورہ مائدہ ، آیت ۱۶

    آیہٴ مبارکہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکم خدا کی پیروی اور اس کی رضا حاصل کرنے سے ہدایت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔

    دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللهَ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَہْدِی إِلَیْہِ مَنْ اٴَنَابَ

    بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں انھیں ہدایت دیتا ہے ۔

    سورہ رعد ، آیت ۲۷

    یہاں ”توبہ اور استغفار کرنے والے “ کو ہدایت کامستحق قراردیا گیا ہے۔

    ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا

    اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے ۔

    سورہ عنکبوت ، آیت ۶۹

    اس آیت میں ”راہ خدا میں مخلصانہ جہاد“ کو ہدایت کے لئے اصلی شرط کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

    نیز ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے: وَالَّذِینَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی

    اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کر لی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور ان کو مزید تقوی عنایت فرمایا ۔

    سورہ محمد ، آیت ۱۷

    اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر انسان راہ ہدایت کی طر ف قدم بڑھائے تو خدا وندعالم اس کو مزید راستہ طے کرنے کی طاقت عطا فرمادیتا ہے۔

    نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک بندوں کی طرف سے توبہ و استغفار نہ ہو اور خدا کے حکم کی پیروی نہ ہو، نیز جب تک خدا کی راہ میں جہاد اور کوشش نہ ہو ، اور جب تک خدا کی راہ میں قدم نہ بڑھائے جائیں تو لطف الٰہی ان کے شامل حال نہیں ہوگا، اور ان کی مدد نہیں ہوگی، نیز وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

    بہر حال ہدایت و ضلالت کامسئلہ حکمت ومشیت سے خالی نہیں ہے، بلکہ ہر موقع پر خاص شرائط ہوتے ہیں جو خدا کے حکیم ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔

    تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹، صفحہ ۴۶۱

جواب دیں۔

براؤز کریں۔