دین اسلام کی نظر میں علم اور عالم کی کیا اھمیت ہے ؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

    اسلام میں حصول علم کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے ۔ خداوندمتعال نے قرآن کریم میں سب سے پہلے پڑھنے ،علم اور کتابت سے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے ۔ کیونکہ علم انسان کو سعادت وتکامل کاراستہ بتاتا ہے اور اسے قوی وتوانا بنادیتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو اپنے مطلوبہ کمالات کے مطابق بہتر بناسکے۔

    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ علم حاصل کی ترغیب دلاتے تھے ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں آیا ہے کہ آپ جنگ بدر کے بعد ہر اس اسیرکو جو مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتا تھا آزاد کر دیتے تھے ۔اس عمل سے اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔آپ تمام علوم کو اہمیت دیتے تھے ، چنانچہ آپ نے اپنے بعض صحابیوں کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ۔ معروف حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے ، حصول علم کے بارے میں آپ کی ترغیب اور تاکید سبب بناکہ مسلمانوں نے بڑی سرعت وہمت کے ساتھ علم حاصل کیا اور جہاں بھی انھیں علمی آثار ملتے تھے اس کا ترجمہ کرڈالا ۔اس طریقہ سے یونانی ، ایرانی ، رومی ،مصری ،ہندی اور بہت سی دوسری تہذیبوں کے درمیان رابطے کے علاوہ تاريخ انسانیت کے عظیم تہذيب وتمدن کو اسلامی تہذیب وتمدن کے نام سے ایسی تہذیب کو جنم دیا کو تاریخ بشریت میں بے نظیر ہے ۔

    مسلمانوں کی نظر میں علم ودین ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ، بلکہ علم دین کا ہمزاد شمار ہوتاہے اور سائنسی علوم جیسے فزکس ، نجوم ، زمین شناسی، طب ، ریاضیات وغیرہ مسلمانوں کے علمی مراکز میں پڑھائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں علمی اور دینی مراکز میں عظیم اور بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں اور علم و دین نے لازم ملزوم کی طرح ترقی کی ، یہ ایسی حالت میں تھا کہ علم ودین کے رابطے کے بارے میں عیسائیت کے غلط استفادے نے یورپ کی تاریخ کو عصر ایمان اور عصر علم کے دوحصوں میں تقسیم کردیااورعلم کو ایمان کے مقابلے میں قرار دیدیا ، قرون وسطی میں علمی اور فلسفی مسائل میں نظریات پیش کرنے کا صرف کلیسا کو حق حاصل تھااور کسی بھی دانشور کو کلیسا کے نظریات کے خلاف علمی نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں تھا اور کلیسا کے نظریات کے خلاف علمی نظریہ کو کفر والحاد کے مساوی سمجھاجاتا تھا ۔ جس کے مطابق بہت سے دانشوروں کو کلیسا کے خلاف علمی نظریہ رکھنے کی وجہ سے جیلوں میں پھانسی دیدی گئی یا پھر انھیں آگ میں جلادیا گيا۔

    چنانچہ اسلام نےدینی اور تاریخی لحاظ سے کبھی بھی علم کی مخالف نہیں کی ہے بلکہ اسلام نے اس کے برخلاف اپنے آغاز ظہور سے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اوربہت سی آیات و روایات میں علم اور عالم کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسلام میں علم کا مقام بہت بلند وارفع ہے اور حصول علم کو دینی فریضہ قرار دیاگیا ہے اور اسلام میں علم کے بارے میں کوئی محدودیت نہیں ہے ، اسلام کی نظر میں تمام نافع علوم مطلوب اور پسندیدہ ہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم کی تعریف نہیں کی جاسکتی ہے بنابر ایں ہر مفید اور اچھے علم کو حا صل کرلو ۔ روایات میں علم کو کسی مخصوص شعبے سےمنحصر نہیں کیاگیا ہے بلکہ ہر اس علم کو حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو لوگوں کے لئے مفید ہو۔ درحقیقت مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انسا ن کے علم میں جتنا اضافہ ہوگا خدا کے بارے میں اس کی معرفت میں بھی زیادہ اضافہ ہوگا کیونکہ اسلامی تعلیمات میں علم اور دین کے درمیان مکمل اتفاق پایا جاتا ہے، اسلام میں علم نافع حاصل کرنے پرتاکید کی گئی ہے، علم دین صرف وہ نہیں ہے جو آخرت کے لئے مفید ہو بلکہ ہر علم نافع ، علم دین ہے۔ ہر علم جو انسان کے لئے مفید واقع ہو چاہے مادی نفع ہو یا معنوی اور اخروی نفع ہو ۔

    سورہ مجادلہ کی گیارہویں آیت میں علم کی اہمیت اور علماء کی برتری اور ان کے اعلی وبلند مقام کی وضاحت کی گئی ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ خدا صاحبان ایمان اور جن لوگوں کو علم دیاگیا ہے ان کے درجات کو بلند کرناچاہتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔

    لفظ درجات مخصوص حد کی تعیین کے بغیر مطلق استعمال ہوا ہے ، جس سے اس کی عظمت بزرگی کی نشاندھی ہوتی ہے ۔ اس آیت شریفہ کی تفسیر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو ذر خدا ،ملائکہ اور انبیاء طالب علم کو دوست رکھتے ہیں اور علم کودوست نہیں رکھتامگر سعادت مند انسان ۔ بس خوش نصیب ہے قیامت کے دن وہ طالب علم جو اپنے گھر سے باہر نکلے اور علم کے ایک دروازے کو اپنے لئے کھول دے۔ خدا اس کے ہر قدم پر اس کے لئے شہدائے بدر کے ایک شہیدکا ثواب لکھتا ہے اور وہ صبح وشام خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گذار تا ہے اور مرنے کے بعد وہ آب کوثر سے سیراب ہوگا اور بہشت کے پھل کھائے گا اور بہشت میں حضرت خضر علیہ السلام کا دوست اور رفیق ہوگا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن جب پل صراط پر عالم اور عابد جمع ہوں گے تو عابد سے کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوکر اپنی عبادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤ اور عالم سےکہا جائے گا کہ یہاں بیٹھو اور جسے چاہو اس کی شفاعت کرو اس لئے کہ جس کی شفاعت کروگے خدا اسے قبول کرلے گا ، عالم قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم السلام کی صف میں کھڑا ہوگا اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی جتنی شفاعت کرسکتاہے شفاعت کرے گا اس لئے کہ قیامت کے دن تین گروہ گہنگاروں کی شفاعت کریں گے ۔ انبیاء ، علماء اور شہدا۔

    اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں بھی حصول علم کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان فرد پر واجب ہے ، حصول علم کے بارے میں واجب کی حد تک تاکید سے اسلام میں لوگوں سے جہالت ونادانی کے خاتمہ اور علم ودانش کے حصول کی اہمیت کا پتہ چلتاہے ۔ علم سے متعلق احادیث میں مرد اورعورت دونوں شامل ہیں ،البتہ بعض روایات میں عورتوں کے لئے حصول علم کے وجوب کی خاص طورپر وضاحت کی گئی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم کاحاصل کرنا مرد وعورت دونوں پر واجب ہے ، انبیاء کرام علیہم السلام کی نظر میں علم کا حاصل کرنا کسی خاص گروہ یا نسل سے مخصوص نہیں ہے ۔بلکہ ہرانسان کو چاہئیے کہ وہ جہالت ونادانی سے دور ہونے کے لئے علم کے حصول کے لئے قدم اٹھائے ، قرآن کریم کی بہت سی آیات میں خدا لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے اور کائنات کے اسرار ورموز کی شناخت کی دعوت دے کر لوگوں کے سامنے معرفت کے نئے دریچے کھولنا چاہتا ہے ۔ خدا نے شناخت ومعرفت کو ایک اہم اور ضروری ذمہ داری قرار دیا ہے چنانچہ اس نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ انسان کی تعلیم کو ان کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے ۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دعوت اس وقت دی گئ کہ جب جہالت ونادانی کے بادل بدووں کے معاشرے پر چھا ئے ہوئے تھے اور لوگ گہرے اور عمیق خواب غفلت میں پڑے ہوئے تھے ۔

    اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو علم دیکر احسان جتایا اور پھر علم کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری عیاں فرمائی: {وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} اور آدم [علیہ السلام] کو تمام چیزوں کے نام بتلائے، پھر انہی چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم [اپنی بات میں]سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ [البقرة : 31]

    علم ہی وہ دولت ہے جو اللہ کی نظر میں خیر کثیر ہے ، فرمانِ باری تعالی ہے: {يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} وہ جسے چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے، اور جسے حکمت دے دی جائے تو اسے خیر کثیر سے نواز دیا گیا ہے۔۔۔[البقرة : 269]

    سلیمان علیہ السلام کے فوجیوں میں سے جس کے پاس سب سے زیادہ علم تھا وہی طاقتور تھا: {قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ} جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ [سلیمان علیہ السلام سے]کہنے لگا کہ آپ کے پلک جھپکانے سے بھی پہلے میں اس [تختِ سبا] کو آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ۔[النمل : 40]

    اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر کی ہوئی نعمتیں شمار کرواتے ہوئے علم کو سب سے اعلی و ارفع مقام عطا فرمایا: {وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ} اللہ تعالی نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان چیزوں کا علم دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔[النساء : 113]

    نیز اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو علم کے سوا کسی بھی چیز میں اضافے کی دعا کا حکم نہیں دیا، فرمایا: { وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا} اور آپ کہہ دیں: میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا فرما۔[طہ : 114]

    علم کی وجہ سے اللہ تعالی کا ڈر پیدا ہوتا ہے اور اس کی اطاعت کی جاتی ہے: {إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ} یقیناً بندوں میں سے اللہ تعالی سے ڈرنے والے علما ہی ہوتے ہیں۔[فاطر : 28]

    اللہ تعالی نے اہل علم اور جاہلوں میں برابری کو مسترد فرمایا، اس لیے ان دونوں میں برابری نہیں ہے جیسے کہ زندہ اور مردہ، بینا اور نابینا میں برابری نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: { قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ} آپ کہہ دیں: کیا صاحب علم اور لا علم برابر ہو سکتے ہیں؟[الزمر : 9]

    علم ہی لوگوں کیلیے زندگی و روشنی ہے:{أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا} بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کر رہا ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو؟ [الأنعام : 122]

    علم کی وجہ سے زندگی اور موت کے بعد بھی بلند درجات ملتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ} اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند فرماتا ہے۔[المجادلۃ : 11]

    پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے کیسے بلیغ انداز میں فرمادیا ہے:

    الحکمة ضالة المومن فحیث وجدہا فہو احق بہا.

    کہ حکمت کو ایک گم شدہ لال سمجھو جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو

    یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھوبیٹھے۔

    باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر وارثِ میراث پدر کیوں کر ہو

    ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دینی علوم کے علاوہ دنیاوی وعمرانی علوم کا کوئی شعبہ یا پہلو ایسا نہیں ہے جو اہل اسلام کے ہاتھوں فروغ نہ پایا ہو، علم کیمیا، طب، جراحی، ہندسہ، ریاضیات یا ہیئت وفلکیات، طبیعات وحیوانیات ارضیات وحیاتیات، معاشیات واقتصادیات، تاریخ وجغرافیہ اور خدا جانے کتنے بے شمار علوم وفنون اور بیش بہا ایجادات واختراعات کے ایسے ماہر وموجد گذرے ہیں کہ اس دور جدید میں بھی ترقی یافتہ قومیں اپنے جدید سے جدید انکشافات وتحقیقات کے لئے ہمارے آبا واجداد کی تشریحات وتسخیرات کی خوشہ چین اور رہین منت ہیں،جیسا کہ مارگولیتھ، جرجی زیدان، ڈریپر، لیبان، نولڈیکی وغیرہ جیسے شہرئہ آفاق مصنّفین وموٴرخین کی بلند پایہ تصانیف سے پتہ چلتا ہے

    غرض فن ہیں جو مایہٴ دین ودولت طبیعی، الٰہی، ریاضی وحکمت

    طب اور کیمیا، ہندسہ اور ہیئت سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت

    لگاؤگے کھوج ان کا جاکر جہاں تم

    نشاں ان کے قدموں کے پاؤگے واں تم

جواب دیں۔

براؤز کریں۔