روز مباہلہ کی اہمیت اور اسکے اعمال کیا ہیں؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    "مباہلہ” کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں[۱] مفسرین کے مطابق یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب عیسائی اپنے اس دعوے کے اوپر اڑے ہوئے تھے کہ حضرت عیسی خدا کے بیٹے ہیں۔
    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کے سامنے دلیل پیش کی اور کہا کہ عیسی خدا کے بیٹے نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں۔ عیسائیوں نے یہ استدلال کیا کہ اگر عیسی خدا کے بیٹے نہیں ہیں تو پھر وہ بغیر باپ کے کیسے پیدا ہوگئے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کی اس دلیل کا جواب یہ دیا کہ پھر تو جناب آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا ہونا چاہیے اس لیے کہ وہ بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے ہیں!!
    عیسائیوں نے رسول اکرم کے اس عقلی استدلال کو بھی قبول نہیں کیا اور اپنی بات پر اڑے رہے آیہ مباہلہ نازل ہوئی رسول اکرم نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتے ہو اور اپنے آپ کو سچا مانتے ہو تو آؤ مباہلہ کرلیتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں جاکر سب ملکر جھوٹوں کے اوپر خدا کی لعنت کرتے ہیں۔
    فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
    ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسیؑ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر(سورہ آل عمران آیت 61)
    شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرمؐ کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیؑ تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے؛ وہ عیسیؑ کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتی کہ آپؐ نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔[۲]
    اہل سنت کے مفسرین (زمخشری،[۳] فخر رازی،[۴] بیضاوی[۵] اور دیگر) نے کہا ہے کہ "ابناءنا” [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسنؑ اور حسینؑ ہیں اور "نسا‏‏ءنا” سے مراد فاطمہ زہراءعلیہا السلام اور "انفسنا” [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔
    نصارائے نجران نے رسول اللہؐ اور آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہوکر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہيں ہوئے اور آپؐ کے ساتھ صلح کرلی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرتؐ نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی۔[۶]
    روز مباہلہ
    شیخ مفید نے اس واقعے کو فتح مکہ کے بعد اور حجہ الوداع سے پہلے (یعنی سنہ 9 ہجری قمری) قرار دیا ہے۔[۷] نصارٰی کے ساتھ رسول خداؐ اور عیسائیوں کے درمیان واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ (سنہ 631عیسوی) کو رونما ہوا۔[۸] صاحب کشف الاسرار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذوالحجہ کو واقع ہوا ہے۔[۹] شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔[1۰] شیخ عباس قمی، اپنی مشہور اور شریف کتاب مفاتیح الجنان میں 24 ذوالحجہ کے لئے بعض اعمال ذکر کئے ہیں جن میں غسل اور روزہ شامل ہیں۔[1۱]
    ” عید مبــاہلہ کے اعمــال ”
    یوم مباہلہ بڑی عظمت اور اہمیت کا دن ہے اور اس کے چند اعمال ہیں :
    ١- غسل
    ٢- روزہ
    ٣- دو رکعت نماز کہ جس کا وقت ترتیب اور ثواب عید _غدیر کی نماز کے مثل ہے ( یعنی سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ توحید ، دس مرتبہ سورہ قدر اور دس مرتبہ آیت الکرسی ) البتہ آیت الکرسی کو ” ھم فیها خالدون ” تک پڑھے –
    ٤- دعا مباہلــہ پڑھے کہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے اس دعا کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی ہے –
    ٥- امیر المومنین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوۓ صدقہ و خیرات کرے اور حضرت کی زیارت پڑھے –
    ٦- اس روز زیارت جامعہ پڑھنا زیادہ مناسب ہے –
    { مفاتیــح الجنــان، صفحــہ ۲۴ ذی الحج کے اعمال}

    حوالہ جات:
    1.الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بہل۔
    2.قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376.ذیل آیه مباهله، ص 57۔
    3.الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیه 61 آل عمران۔
    4.الرازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیه 61 آل عمران۔
    5.البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیه 61 آل عمران۔
    6.قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376، ذیل آیه مباهله، ص 57۔
    7.المفید، الارشاد، ج1، صص166-171
    8.ابن شهرآشوب، 1376ق، ج 3، ص: 144۔
    9.میبدی، کشف الاسرار وعدة الابرار، ج2، ص147۔
    10.انصاری، مرتضی، کتاب الطهارة، ج3، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، صص48-49۔
    11.رجوع کریں: ذو الحجہ کے واقعات و اعمال

جواب دیں۔

براؤز کریں۔