عقیدہ رجعت آیات و روایات کی روشنی میں بیان فرمائیں؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
جواب
سلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
لغت میں "رجعت "واپس لوٹنے کے معنی میں ہے۔ شیعوں کی اصطلاح میں اس کا مطلب حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد اور قیامت سے پہلے امت اسلامیہ کے ایک گروہ کا دوبارہ زندہ ہوکر دنیامیں واپس لوٹنا ہے۔سب سے پہلے رجعت کے مسئلہ پر خودقرآن مجید گواہ ہے سورہ نمل آیت ۸۳ میں خداوند متعال ارشادفرماتا ہے:
"ويوم نحشر من كل أمة فوجا ممن يكذب بآياتنا فهم يوزعون”{۱}
"اور اس دن ہم ہرامت میں سے ان کے ایک گروہ کو اکٹھا کر یں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے اور پھر الگ الگ تقسیم کر دے جائیں گے۔”
اوراسی سورہ مبارکہ کی آیت ۸۷ میں خداوند متعال ارشادفرماتا ہے:
"ويوم ينفخ في الصور ففزع من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله وكل أتوه داخرين”{۲}
"اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان میں جوبھی ہے سب لرزجائیں گے علاوہ ان کے جن کو خدا چاہے اور سب اس کی بارگاہ میں سر جھکائے حاضر ہوں گے۔”
مذکورہ آیات میں دونوں کا ذکر ہوا ہے۔ دوسرا "یوم "پہلے”یوم پر عطف کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ پہلے دن میں صرف ایک خاص گروہ کے زندہ ہونے کا ذکر ہوا ہے اور دوسرے دن میں تمام لوگوں کے مرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ان نکات کو ربط دینے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلا دن قیامت کے علاوہ کوئی اور دن ہے اور ان دونوں میں آپس میں فرق ہے۔
یہاں پر پھر سےیادآوری ضروری ہے کہ پہلی آیت ایک خاص گروہ کے زندہ ہونے کی بات بیان کرتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسادن قیامت کا دن نہیں ہوسکتا۔ چونکہ اس دن صور پھونکے جانے کے بعد تمام انسان زندہ ہوجائیں گے ۔جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
” ان كل من في السموات والأرض إلا آتي الرحمن عبدا لقد أحصاهم وعدهم عدا وكلهم آتيه يوم القيامة فردا”{۳}
"زمین و آسمان میں کوئی ایسانہیں ہے جو اس کی بارگاہ میں بندہ بن کر حاضر ہونےوالا نہ ہو۔۔۔اور سب ہی(کل) روز قیامت اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں۔”
ایک دوسری آیت میں قیامت کے وصف کے طور پر فرماتا ہے:
"وحشرنھم فلم نغادر منهم أحدا "{۴}
”اور ہم سب کو اس طرح جمع کر یں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑ یں گے۔”
سورہ نمل کی مذکورہ دو آیتیوں کا مقابلہ اور موازنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا دودونوں کے انتظار میں ہےکہ ایک دن صرف چندانسان زندہ ہوں گے اور دوسرے دن سب محشور ہوں گے ۔شیعوں کی روایتیں پہلے دن کو حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد اور قیامت سے پہلے جانتی ہیں ۔
چند صالح لوگوں اور کچھ بد کردار لوگوں کا قیامت سے پہلے زندہ ہونا کوئی تعجب خیزامرنہیں ہے کیونکہ گذشتہ امتوں میں بھی کچھ لوگ مرنے کے
بعد زندہ ہوئے ہیں اور کچھ مدت کے بعد دوبارہ مر گئے ہیں۔{۵}
چند افراد کا دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں لوٹنا،نہ علم عقل کے خلاف ہے اور نہ روایت کے مخالف، کیونکہ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں قرآن مجید کے صریح حکم کے مطابق گذشتہ امتوں میں بھی ایسے وا قعات ر ونما ہوئے ہیں اور یہ اس کے امکان کی بہترین دلیل ہے۔ یہاں پربھی بھی لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ رجعت‘‘ بھی’’ تناسخ ‘‘ ہے، یہ بالکل ایک بےبنیاد تصور ہے ، کیونکہ تناسخ کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد روح دوبارہ یا نطفے سے زندگی شروع کرتی ہے یا دوسرے بدن میں منتقل ہوتی ہے ۔ جبکہ "رجعت”میں ان دونوں باطل امور میں سے کسی ایک کا بھی وجود نہیں ہے۔ اسی لحاظ سے حکم رجعت ، گذشتہ امتوں میں مردوں کے زندہ ہونے اور قیامت میں معاد جسمانی کے مانند ہے اور یہ حقیقت میں اس اصلی قیامت کا ایک مختصر جلوہ ہے جس میں تمام انسان کسی استثناء کے بغیر پھر سے زندہ ہوں گے ۔
رجعت کے بارے میں شیعوں کی تفسیر ، احادیث اور کلام کی کتابوں میں وسیع اور مفصل بحث ہوئی ہے ۔ اس موضوع پر شیعوں کی روایات تواتر کی حد تک پہونچتی ہیں اور تیسں سے زیادہ محدثین نے پچاس سے اوپر کتابوں میں ان احادیث کو نقل کیا ہے۔{۶}
قرآن مجید حوالہ :
۱۔ سورہ نمل آیت ۸۳
۲۔ سورہ نمل آیت ۸۷
۳۔ سورہ مریم آیت ۹۵،۹۳
۴۔ سورہ کہف آیت ۴۷
۵۔بنی اسرائیل کے ایک گروہ کازند ہ ہونا ۔بقرہ: ۵۶،۵۵،بنی اسرائیل کے مقتول کا زندہ ہو نا ۔: بقرہ: ۷۳،۷۲،لوگوں کے ایک گروہ کا مرنے کے بعد پھر سے زندہ ہونا۔بقرہ:۲۴۳،جناب عزیزکا سوسال کے بعد زندہ ہو نا۔بقرہ:۲۵۹ ،مردوں کا حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کےمعجزہ سے زندہ ۲ ہونا: آل عمران: ۴۹ ۔
۶۔بحار الانوار،ج۵۳،ص۱۳۶