علی علیہ السلام پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی و جانشین کیسے ہیں؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. جواب

    سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    شیعہ فرقہ کے عقیدہ کے مطابق "مسئلہ خلافت "وہ مسئلہ ہے جو نص کے ذریعہ حل ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آنے والی امامت کی کچھ باتیں نبوت سے ملتی جلتی ہیں ۔ مثلا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف خدا کراتا ہے ، اسی طرح ان کاوصی بھی وہی معین کرتاہے۔

    تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ آپ نے متعدد مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا ۔ ہم یہاں صرف تین مقامات پیش کر رہے ہیں۔

    ۱-ابتدائے بعثت میں آن حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ” وانذر عشیرتک الاقربین”{سورہ شعراء آیہ ۲۱۴}

    "آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں ”

    اورانھیں توحید کی دعوت دیں۔اس موقع پر آنے والے مجمع سے خطاب فرماتے ہوئےآپ نے فرمایا:

    ”فایّکم یوازرنی فی ھذا الامر علی ان یکون اخی ووزیری وخلیفتی ووصیی فیکم”

    "اس سلسلہ میں تم میں میری مددکون کرے گا؟جو میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وزیر ،خلیفہ اور تمہارے درمیان میرا وصی ہوگا”

    اس ملکوتی آوازپر اس مجمع میں حضرت علی علیہ السلام نے لبیک کہی،پھر آپ نے اپنے قرابت داروں کی طرف رخ کرکے فرمایا:

    "ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوان لہ واطیعوہ”

    یعنی یہ {علی علیہ السلام } میرے بھائی ، وصی اور تمہارےدرمیان میرے جانشین ہیں تم ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔

    {شواھد التنزیل،حسکانی، ج۱،ص۵۴۳، الطرائف،سید بن طاووس،ج۱،ص۲۱}

    ۲-غزوہ تبوک کے موقع پر آں حضرت نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا ”اما ترضی ان تکون منی بمنزلہ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی”کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی ،سوائے اس بات کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ یعنی جس طرح جناب ہارون ،جناب موسی علیہ السلام کے بلا فصل خلیفہ و جانشین تھے اسی طرح تم بھی بلا فصل میرے جانشین اور خلیفہ ہو۔

    ۳-سنہ ۱۰ھ میں حجہ الوداع سے واپسی کے موقع پر مقام غدیر خم میں مجمع کثیر کے سامنےآپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مو منین اور مسلمانوں کا ولی بناتے ہوئے فرمایا: ”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ” میں جس کا مولا ہوں یہ علی بھی اس کامولا ہیں۔جس کا میں سر پرست ہوں یہ علی بھی اس کے سر پرست ہیں۔ چونکہ پہلے آپ نے فرمایا تھا کہ”الست اولی بکم من انفسکم” یعنی کیا مجھ کو تم پر خود تم سے بڑھ کر الوھیت حاصل نہی ہے؟ سارے مسلمانوں نے آپ کے قول کی تصدیق کی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث میں لفظ مولی سے آپ کی مراد ،مومنین پر اولویت ،سر پرستی اور مکمل اختیار کا حاصل ہوناہے۔لہذا پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الوہیت کا جو مقام حاصل تھا ،حضرت علی علیہ السلام کو بھی وہی منزلت حاصل ہے۔

    حدیث غدیر اسلام کی متواتر حدیث ہے ۔علمائےشیعہ کے علاوہ تقریبا تین سو ساٹھ سنی علماء نے بھی اسے نقل کیا ہے۔اس کی اسناد میں ایک سو پچاس صحابی شامل ہیں ۔بڑے بڑےچھبیس علماء نےاس کی اسناد وطرق میں مستقل کتابیں لکھی ہیں۔مشہور مورخ ابو جعفرطبری نے اس حدیث کی اسناد و طرق کے بارے میں دو بڑی جلدیں لکھ ڈالی ہیں۔زیادہ وضاحت اور معلومات کے لئے کتاب "الغدیر” کا مطالعہ مفید ہو گا۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔