عہد کو پورا کرنے کے سلسلہ میں اسلام کا نقطہ نظر بیان فرمائیں؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    عہد و پیمان کو وفا کرنے کے سلسلہ میں اسلام میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
    یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ
    اپنے عہد و پیمان اور قول و قرار پورے کرو،
    فقہی مباحث میں” اصالة اللزوم لعقود“ نام سے ایک اہم فقہی قاعدہ ہے جسکے مطابق ہر قسم کا عہد و پیمان چاہے وہ کچھ چیزوں کے بارے میں ہو یا دو افراد کے درمیان ، اس کا اجرا اور اس پر عمل کرنا ضروری اور لازمی ہے ۔
    مختلف قسم کے معاملات، شراکتیں ، کارو بار اور قرا دادیں جو ہمارے زمانے میں موجود ہیں اور سابقہ دور میں نہیں تھیں یا آنے والے دور میں معرض وجوہ میں آئیں گی اور صحیح اصولوں کی بنیاد پر ہوں گی، یہ قاعدہ سب پر محیط ہے اور یہ آیت سب کے بارے میں ہے ( البتہ ان کلی ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کا اسلام معاہدوں کے بارے میں حکم دیتا ہے ) ۔
    عہد و پیمان کی وفا کا مسئلہ ،اجتماعی زندگی کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے بغیر کوئی اجتماعی کام ممکن نہیں ہے ۔اور اگر انسان اسے گنوا بیٹھے تو اجتماعی زندگی اور اس کے ثمرات کو عملی طور پر کھو بیٹھتا ہے ۔ اسی بنا پر اسلام میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ شاید بہت کم کوئی اور چیز ہو جسے اس قدر وسعت سے بیان کیا گیا ہو ،کیونکہ اس کے بغیر معاشرہ ہر ج مرج اور عدم اطمینان کا شکار ہو جائے گا، جو نوع انسانی کے لئے سب سے بڑی اجتماعی مصیبت ہے ۔
    نہج البلاغہ میں مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں حضرت امیر المومنین (علیه السلام) فرماتے ہیں :
    فانہ لیس من فرائض اللہ شیء الناس اشد علیہ اجتماعا مع تفرق اھوائھم و تشتت ارائھم من تعظیم الوفا بالعقود، و قد لزم ذٰلک المشرکوں فیھا بینھم دون المسلمین لما استوبلوا من عواقب الغدر۔
    نہج البلاغہ، حضرت علی (علیه السلام) کے خطوط میں سے خط نمبر ۵۳۔
    دنیا بھر کے لوگوں میں تمام تر اختلافات کے باوجود ایفائے عہد کی اہمیت پر اتفاق ہے ۔ زمانہ جاہلیت کے بت پرست بھی اپنے عہد و پیمان کا احترام کرتے تھے ۔ کیونکہ وہ عہد شکنی کے درد ناک انجام کو جان چکے تھے ۔ (مستدرک الوسائل ج۲ ص ۲۵۰۔)
    امیر المومنین (علیه السلام) ہی سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
    ان اللہ لایقبل الا العمل الصالح ولا یقبل اللہ الا الوفاء بالشروط و العھود ۔
    خدا اپنے بندوں سے عمل صالح کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور ( اسی طرح ) خدا شرائط اور عہد و پیمان کے ( بارے میں بھی) ایفاء کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرتا ۔ (سفینة البحار، ج۲ صفحہ ۲۹۴۔ )
    پیغمبر اکرم سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:
    لادین لمن لا عھد لہ (بحار جلد ۱۶ صفحہ ۱۴۴) ۔
    جو شخص اپنے عہد و پیمان کا وفا دار نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔
    لہٰذا ایفائے عہد ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں افرادِ انسانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے چاہے طرف مقابل مسلمان ہو یا کوئی غیر مسلم۔ اصطلاح کے مطابق یہ انسانی حقوق میں سے ہے نہ کہ برادرانِ دینی کے حقوق میں سے ۔
    ایک حدیث میں حضرت امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا :
    ثلاث لم یجعل اللہ عز وجل لا حد فیھن رخصة ، اداء الامانة الیٰ البر و الفاجر، و الوفاء بالعھد للبر والفاجر، و بر الوالدین برین کانا او فاجرین ۔
    تین چیزیں ایسی ہیں جن کی مخالفت کی خدا نے کسی شخص کو اجازت نہیں دی ۔
    ۱۔ امانت کی ادائیگی، ہر شخص کی امانت چاہے وہ نیک ہو یا بد ۔
    ۲۔ ایفائے عہد ہر کسی سے چاہے وہ اچھا ہو یا برا ۔
    ۳۔ ماں باپ سے حسن سلوک ، چاہے وہ اچھے ہو ں یا برے۔(اصول کافی جلد ۲ صفحہ ۱۶۲)
    لہذا مندرجہ بالا سوال کی روشنی میں دونوں افراد پر اپنے اپنے عہد پر عمل کرنا ضروری اور لازم ہے۔
    یہ عہد ایک طرح کا ہبہ معوّضہ اور لازم الاجراء ہے ۔
    تفسیر نمونہ جلد ۴۔ تفسیر آیت نمبر ۱، سورہ مائدہ ، سے ماخوذ۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔