مباہلہ کا واقعہ مختصرانداز میں بیان فرمائیں؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. جواب

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

    نجران کا علاقہ حجاز و یمن کے درمیان تقریبا 70 دیہاتوں پر مشتمل تھا اور یہ حجاز کا واحد علاقہ تھا جہاں کے لوگوں نے بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائی مذہب کی پیروی اختیار کر رکھی تھی۔

    نبی اکرمؐ نے اپنی رسالت کو انجام دینے اور پیغام الہی کو لوگوں تک پہونچانے کی غرض سے متعدد ممالک کو خط لکھا یا اپنا سفیر بھیجا، انہیں میں سے ایک خط نجران کے پادری ’’ابوحارثہ ‘‘ کے نام بھی تھا جس کے ذریعہ آپؐ نے اہل نجران کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نجرانیوں نے مشورہ کیا اور طے کیا کہ کچھ لوگوں کو بھیج کر رسول اسلامؐ کے دلائل کو سنیں اور حقانیت کا پتہ لگائیں۔

    یہ واقعہ نویں ہجری کا ہے جسے ’’عام الوفود‘‘ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس سال جزیرۃ العرب کے مختلف علاقوں سے مختلف وفد آنحضرتؐ کی خدمت میں پہنچے، انہیں میں سے ایک وفد نجران کا تھا جو ساٹھ لوگوں پر مشتمل تھا، بعض نے کہا ہے کہ یہ وفد چودہ بڑی شخصیتوں پر مشتمل تھا جن میں سے ان کے سربراہ ’عبد المسیح‘ اور انکا مشاور’ایہب‘ جس کا لقب سید تھا اور تیسرا انکا پادری تھا جو نصرانیوں میں عظیم المرتبت جانا جاتا تھا اور روم کے بادشاہ نے اس کے لئے کئی مدارس اور کلیسا کھولے تھے اور مال و منصب سے نوازا تھا۔

    پیغمبر اسلامؐ نے ان کا استقبال کیا، جب نماز کا وقت ہوا انہوں نے ناقوس بجانا شروع کردیا، اصحاب نے انہیں روکنا چاہا۔ آپؐ نے فرمایا: انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔۲

    جب وہ لوگ رسول اسلامؐ کی خدمت میں پہنچے سوال کیا: ہمیں یہاں کس لئے دعوت دی گئی؟ فرمایا : اسلئے کہ اللہ کی وحدانیت کی گواہی دو میری رسالت پر ایمان لاؤ اور یہ کہ عیسیٰ بھی خدا کے بندے تھے دوسرے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے ، محدث ہوتے تھے، انہوں نے کہا: اگر وہ کسی کے بیٹے تھے تو ان کے والد کون تھے؟ آیت ’’ان مثل عیسی عند اللہ کمثل آدم ۔۔‘‘ نازل ہوئی اور آنحضرتؐ نے فرمایا تمہارا ابوالبشر آدمؑ کے سلسلہ میں کیا کہنا ہے؟ انکے والد کا کیا نام تھا ؟ وہ جواب نہ دے سکے ۔

    نبی اکرمؐ نے فرمایا: چلو مجھ سے مباہلہ کرلو، اگر میں سچا نکلا تو تم پر لعنت ہوگی اور اگر میں جھوٹا نکلا تو مجھ پر۔ انہوں نے کہا: آپ نے انصاف سے کام لیا، اور مباہلہ کا وقت طے ہوگیا۔ جب وہ اپنی جائے قیام پر آئے تو ان کے بزرگوں سید، عاقب اور ایہم نے کہا: اگر وہ اپنی قوم کے ساتھ آئے تو ہم مباہلہ کریں گے کیونکہ ثابت ہوجائے گا کہ وہ نبی نہیں۔ لیکن اگر صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تو مباہلہ نہیں کریں گے، اس لئے کوئی اپنے گھر والوں کو نہیں لاتا سوائے یہ کہ وہ سچا ہو۔ جب صبح ہوئی رسول اکرمؐ اس صورت میں تشریف لائے کہ ساتھ میں امیرالمومنین، حسن اور حسین تھے اور ان کے پیچھے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہم)۔ نصرانیوں نے کہا: یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا: یہ انکے جانشین اور بھائی اور داماد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں، اور وہ انکی لخت جگر فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں اور وہ ان کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ جیسے ہی انہوں نے انکو پہچانا، کہنے لگے ہم مباہلہ نہیں کریں گے۔ جتنا جزیہ{ٹکس }چاہیں آپ لے سکتے ہیں۔۳

    ان میں سے بعض نے کہا اگر ان سے مباہلہ کیا تو روئے زمیں کوئی نصرانی/ عیسائی نہیں بچے گا۔

    اور انہوں نے اس بات پر صلح کی کہ ہر سال دوہزار حلے جن میں ہر ایک کی قیمت چالیس درہم ہے ادا کریں گے ہزار ماہ صفر میں اور ہزارماہ رجب میں۔۵

    حوالہ جات

    ۱۔معجم البلدان، یاقوت حموى، ج5، ص 267ـ 266۔

    ۲۔تفسير الكاشف‏، مغنيه، ج2، ص76۔

    ۳۔تفسير القمي، ج‏1 ،ص104؛ تفسير نور الثقلين‏،ج1، ص347؛ جامع البيان، طبرى، ج3، ص211؛ تفسير العياشي، ج‏1 ، ص176۔

    ۴۔التبيان فى تفسير القرآن‏، طوسى، ج2، ص484۔

    ۵۔الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏1، ص 166۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔