مستحب قربانی کے کیا احکام و مستحبات ہیں؟
سوال
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۱- جو افراد قربانی کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لیے اس مستحب کو انجام دینے کی تاکید ہے۔
۲۔اگر کسی کے پاس قربانی کرنے کے پیسے ہوں لیکن جانور مہیا نہ کر سکتا ہو تو اس کی قیمت صدقہ میں دینا مستحب ہے۔
۳۔انسان اپنے اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ایک جانور قربانی کر سکتا ہے ۔
۴۔دو یا اس سے زیادہ افراد کا شریک ہو کر قربانی کرنا صحیح ہے، بالخصوص اگر جانور کم ہو اور اس کی قیمت زیادہ ہو ۔
۵۔قربانی کا بہترین وقت عید قربان کے دن سورج نکلنے اور نماز عید کی مقدار وقت گذرنے کے بعد ہوتا ہے۔
۶۔وہ افراد جو منی میں ہیں ان کے لے چار دن تک قربانی کرنا مستحب ہے، اور جو منی میں نہیں ہیں ان کے لیے تین دن تک مستحب ہے، گر چہ احتیاط مستحب ہے کہ عید قربان کے دن ہی قربانی کریں۔
۷۔قربانی کا جانور اونٹ، گاے یا بھیڑ ( بکرا) ہونا چاہیےاور احتیاط واجب کی بنا پر پانچ سال سے کم کا اونٹ، دو سال سے کم کی گاے اور بکرا، اور سات مہینے سے کم کی بھیڑ کافی نہیں ہے۔
۸۔مستحب قربانی میں وہ شرائط و صفات واجب نہیں ہیں جو واجب قربانی میں شرط ہیں ۔پس کانا، لنگڑا کان کٹا یا سینگ ٹوٹا،خصی،یا لاغر جانور کی قربانی دینا جایز ہے۔ اگرچہ احوط(احتیاط سے قریب تر) اور افضل یہ ہے کہ اسکے اجزاء سلامت ہوں اور موٹا ہو، اور مکروہ ہے اپنے پالتو جانور ہی کی قربانی کی جائے۔
۹۔بیمار، کمزور اور عیب دار جانور کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۱۰۔قربانی کے گوشت کا ایک حصّہ خود کے لیے رکھے، اور ایک حصّہ مسلمان کو دے اور احتیاط مستحب ہے تیسرا حصّہ غریب مسلمانوں کو صدقہ دے۔
۱۱۔قربانی کی کھال صدقہ کے طور پر دینا مستحب ہے، قصاب کو اجرت کے طور پر دینا مکروہ ہے ۔
۱۲۔قربانی کرنے والے شخص کا عقیقہ ساقط ہو جاتا ہے۔
۱۳۔میت کے لیے رجاء کی نیت سے قربانی کر سکتے ہیں۔
۱۴۔ایک جانور دو یا چند لوگوں کے لیے قربانی کر سکتے ہیں۔
حوالہ:آیت اللہ سیستانی آفیشل ویب سائٹ
Link:https://www.sistani.org/urdu/qa/02443
https://www.leader.ir/ur/content/24605/