مولا علی نے اپنی خلافت کے دورمیں تراویح کیوں ختم نہ کروائی؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    خیال رہے کہ دور خلافت میں بھی مولا علی علیہ السلام امام کی حیثیت سے حاکم نہیں بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ کے طور پر حاکم بنے تھے پھر بھی جہاں تک ممکن تھا گذشتہ حکومتوں کی بدعتوں کا مقابلہ کیا ، البتہ اس سلسلہ میں حضرت نے حکمت سے کام لیا، گذشتہ حکومتوں نے معاشرہ کو تباہی کے دہانہ پر پہنچادیا تھا، اجتماعی اور معاشرتی فسادات عروج پر تھے، ظلم اور تباہی کے آثار نمایاں ہو چکے تھے اس لئے امام نے جس تباہی سے مقابلہ کو زیادہ اہم تشخیص دیا اس کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا لیکن خود حضرت نے تراویح کو زیادہ اہمیت نہیں دی، ایسا نہیں کہ اس بدعت کو نہیں روکا ، بلکہ تاریخ میں موجود ہے کہ جب امام کے دور خلافت میں پہلے ہی رمضان المبارک میں لوگ مسجد کوفہ میں نماز تراویح پڑھ رہے تھے تو امام نے امام حسن علیہ السلام کو بھیجا کہ لوگوں کو سمجھائیں کہ یہ عمر کی ایجاد کردہ بدعت ہے لہذا اس بدعت سے پرہیز کیا جائے لیکن لوگ نہیں مانے اور شور مچانا شروع کردیا وا سنت عمراہ، وا سنت عمراہ، تو امام نے جب یہ صورت حال ملاحظہ کیا کہ لوگ جان بوجھ کر اس بدعت پر اصرار کرنا چاہ رہے ہیں اور اس طرح کوفہ والے برملا اپنے مذہب کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم علی کے شیعہ نہیں بلکہ عمری ہیں تو حضرت علی نے امام حسن سے فرمایا کہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دو، کیوں کہ مولا علی کی حکومت میں زبردستی کسی عمری کو شیعہ بنانا مقصود نہیں تھا ۔

    لما قدم أمير المؤمنين ع الكوفة أمر الحسن بن علي ع أن ينادي في الناس لا صلاة في شهر رمضان في المساجد جماعة فنادى في الناس الحسن بن علي ع بما أمره به أمير المؤمنين ع فلما سمع الناس مقالة الحسن بن علي ع صاحوا وا عمراه وا عمراه فلما رجع الحسن إلى أمير المؤمنين ع قال له ما هذا الصوت قال له يا أمير المؤمنين الناس يصيحون وا عمراه وا عمراه فقال أمير المؤمنين ع قل لهم صلوا.

    الوافي، ج 11، ص: 436

    مزید حوالے :

    مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 34، ص 167، عنوان «علّة عدم تغییر أمیر المؤمنین(ع) بعض البدع فی زمانه»‏ بیروت، مؤسسة الوفاء، چاپ اول، 1410ق.

    کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 8، ص 58، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ق

    محمد بن حسن طوسی، تهذیب الاحکام، ج۳، ص۷۰، چاپ حسن موسوی خرسان، تهران ۱۳۹۰، ۱۳۹۰۰.

    محمد بن مسعود عیاشی، تفسیر العیّاشی، ج۱، ص۲۷۵، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم.

جواب دیں۔

براؤز کریں۔