میاں بیوی الگ ہوجائیں تو بچے کس کے پاس رہینگے ؟

سوال

سلام علیکم

میاں بیوی الگ ہوجائیں تو شرعا بچے کس کے پاس رہینگے ؟ ان کی ذمہ داری کس کے اوپر ہے ؟ کیا یہ صحیح ہے کہ بچے ہمیشہ باپ کی ملکیت ہیں ، تو پھر اسلام کی نظر میں ماں کا حق کیا ہے ؟

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    جب میاں بیوی کی ہٹدھرمیوں کی بناپر گھرکے پرسکون ماحول پر اختلافات کی آندھیاں چھاجائیں، معصوم بچوں کے کھل کھلاتے چمن پر باد خزاں چلنے لگے، ان کا چہکتا کاشانہ اجڑ جائے اور سسکتے بلکتے بچے اپنے ماں باپ سے پرسکون زندگی کے لئے دہائی دے رہے ہوں، یقینا ایسے حالات میں یہ طے کرنا آسان نہیں کہ یہ معصوم بچے کس کے پاس رہینگے ؟ ماں ، باپ ، رشتہ دار ، یا کوئی غیر جو گود لینا چاہے ، یا نہیں تو پھر کسی اور سماجی ادارے کے سپرد کردئیے جائینگے ؟

    حالانکہ صدیوں سے شیعہ فقہا نے اپنی انتھک شب و روز کی محنتوں اور اپنی فقہی و علمی باریک بینیوں کے ذریعہ بہت حد تک اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس مسئلہ کا سب سے بہتر حل تو خود والدین کے اختیار میں ہے، کہ وہ اپنے لخت جگر معصوم بچوں کے نازک اور لطیف جذبات، ان کے مجروح نفسیات، تاریکیوں میں اوجھل ہوتے ہوئے ان کے ممکنہ مستقبل پر نظر رکھیں، عقل کے ناخون لیں، اپنی دوراندیشیوں سے وقتی، عارضی اور غیر اہم مسائل کو دور پھینکیں، ہٹدھرمی، عصبیت، انانیت، نفس پرستی، اور تنگ نظری کے شیطانی خول سے باہر نکلیں، اور اپنے فکری اور عقلی بلوغ کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے مسئلہ کو اپنے ہی رشتہ دار بزرگوں کی مدد سے خود حل کریں، اور اپنی شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے گھر کے مسائل کو سربازار نہ لے جائیں، اور اس حقیقت کو سمجھیں کہ زندگی کھیل تماشہ نہیں ورنہ خود تماشہ بن کے رہ جائینگے، اور انہیں زندگی میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، والدین میں سے کوئی بھی ماں یا باپ اگر اپنے بچے پر ظلم کرے اور اپنے ہی جگر گوشوں کے جذبات اور مستقبل سے کھیل کراپنی ہی انانیت اور نفس پرستی میں پڑا رہے تو روز محشر میں اس کا حساب تو دینا ہی پڑے گا، ساتھ میں اس دنیا میں بھی وہ کبھی چین سے جی نہیں رہ سکینگے، اور جس نفسیاتی بیماریوں میں ابھی مبتلی ہیں یقینا اس میں مزید اضافہ کے ساتھ اور بھی پیچیدہ تر بیماریاں لاحق ہونگی، اتنا کہ چین سے تکیہ پر سر رکھ کے سونا بھی نصیب نہ ہوگا ۔ ۔ ۔

    ان سب کے باوجود اگر طرفین نے یا ان میں سے کسی ایک طرف نے خدا نہ خواستہ اپنے عدم بلوغ کا ثبوت دیا، تو پھر معصوم بچوں کی حق تلفی کی ممکنہ روک تھام کے لئے مجبورا شریعت کے عام المنفعہ قوانین کا سہارا لینا ہوگا، اگرچہ ایسے سخت گیر قوانین پر عمل درآمد کرنے میں طرفین میں سے کسی نہ کسی کو تو ضرور ٹھینس پہنچے گی، لیکن اس بات کے ذمہ دار وہ لوگ خود ہونگے نہ کہ اسلامی شریعت کے قوانین ؛ کیونکہ اسلام تو پہلے اخلاق، میل محبت ایثار اور قربانی کی دعوت دیتا ہے، لیکن جب کوئی اخلاق سے گر جائے تو بہرحال عدل و انصاف کے قیام اور حق تلفیوں کی روک تھام کے لئے مجبورا شریعت کے سخت گیر قوانین کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے، ایسے میں یہ شکایت نہیں ہونی چاہئے کہ اسلام کے قوانین بہت سخت اور دشوار ہیں کیونکہ اصل میں تو اسلامی شریعت، سمحۃ السہلہ ہے؛ لیکن مجرمین کے لئے بہرحال سختی ضروری ہے ؛ اگرچہ وہ سختی بھی عقل و عدل و انصاف کی بنیاد پر ہے، اس سختی میں بھی کسی کی حق تلفی نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ بشر کے بنائے ہوئے قوانین نہیں، اللہ سبحانہ تعالی کی بنائی ہوئی پاک و پاکیزہ اور مقدس شریعت ہے ۔

    اس مقدمہ کے بعد ہم آپ کے سوال کی جانب آتے ہیں ، البتہ امید کرتے ہیں کہ یہی مقدمہ آپ کے لئے کافی ہو اور آنے والے مطالب کی آپ کو ضرورت نہ پڑے ۔

    آپ کا سوال شریعت میں مسئلہ حضانت سے بھی مربوط ہے اور مسئلہ کفالت سے بھی ؛ البتہ آپ کے سوال میں ملکیت کی بھی بات تھی جو کہ سراسر غلط ہے، کیونکہ بچے سامان یا مال نہیں جو کسی کی ملکیت میں ہوں ؛ شاید یہاں ملکیت سے آپ کی مراد ولایت ہو ، جبکہ ملکیت اور ولایت میں بہت فرق ہے، پس ملکیت کا نہیں، بلکہ ولایت کا سوال بن سکتا ہے لہذا ملکیت کو چھوڑ کے یہاں تین الگ الگ مسئلے ہیں حضانت ، کفالت اور ولایت ؛ ان کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ ان کے آپسی فرق کو نہ سمجھنے سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔

    حضانت : مسئلہ حضانت Custody سے مراد یہ ہے کہ بچے کس کے پاس رہینگے ؟ بچوں کی نگہ داشت کون کرے گا ؟

    کفالت : مسئلہ کفالت Financial support سے مراد یہ ہے کہ بچوں کے خرچ کا ذمہ دار کون ہے ؟

    ولایت : مسئلہ ولایت Guardianship سے مراد یہ ہے کہ بچوں کا ولی اور سرپرست کون ہے ؟ اور اس ولایت کا دائرہ بچوں کے اموال اور ان کی شادی بیاہ پر تسلط اور نظارت تک ہے ۔

    بہرحال اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بچوں کی ولایت Guardianship باپ اور دادا کے اختیار میں ہے اور یہ ولایت ہر حال میں برقرار رہتی ہے البتہ اس میں بھی بعض استثنائات ہیں جن کی تفصیل فقہی کتابوں میں موجود ہیں، اس مقام پر اس سلسلہ میں بحث کی ضرورت نہیں ۔

    بچوں کی کفالت Financial support بھی عام طور سے باپ کی ہی ذمہ داری ہے ، چاہے بچے اس کے پاس ہوں یعنی چاہے باپ کی حضانت میں ہوں یا ماں کی حضانت میں یا کسی اور کی حضانت میں ہوں، کفالت بہرحال باپ کی ہی ذمہ داری ہے اور یہ بہت واضح ہے۔

    عالم تشیع کی فقہ استدلالی کی اعلی ترین کتاب جواہر الکلام میں صاحب جواہر تحریر فرماتے ہیں : آیه کریمه، فان ارضعن لکم سوره طلاق، آیه 6 کے تحت اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بچہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی اس کا نفقہ باپ کے ذمہ ہے ، اگر چہ ماں مالدار ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اس سلسلہ میں روایات بھی فراوان ہیں ۔ وسائل الشیعه ، ج 15/236

    شیخ طوسی نے بھی یہی حکم دیا ہے لیکن استدلال میں سورہ اسراء کی اس آیہ شریفہ کو پیش کیا ہے: لاتقتلوا اولادکم خشیة املاق ۔ الخلاف ، ج 3/77

    قرآن پاک کی آیات کے علاوہ احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ بچوں کی کفالت کا ذمہ دار باپ ہی ہے ؛ چنانچہ ایک شخص امام صادق علیہ السلام سے پوچھتا ہے کہ کن لوگوں کا خرچہ میرے اوپر واجب ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : ماں، باپ، بیوی، بچے ۔ وسائل الشیعه ، ج 15/237، ح 3

    مسئلہ کفالت بہت واضح ہے، اور اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے لہذا اس میں بھی کوئی خاص بحث کی ضرورت نہیں ہے ۔

    لیکن حضانت Custody ذرا پیچیدہ مسئلہ ہے، ایسا کہ ایک جملہ میں نہیں کہا جاسکتا کہ بچوں کی حضانت ماں کو دی جائے یا باپ کو، کیونکہ اس میں بہت سے مسائل دخیل ہیں، ان سب کو دیکھ پرکھ کر ہی یہ طئے کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کی حضانت کسے سپرد کیا جائے، ماں کو، یا باپ کو، یا اگر دونوں نالایق ہیں تو ان دونوں میں سے کسی کو نہیں بلکہ کسی لائق رشتہ دار کو، یا کسی غیر کو جو گود لینا چاہے ، اور اگر ان میں سے کچھ بھی ممکن نہ تو پھر بچے کسی اور سماجی ادارے کے سپرد کردئیے جائینگے؛ مثلا یتیم خانہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ البتہ ان کا خرچ باپ سے ہی لیا جائے گا، کیونکہ کفالت کا ذمہ دار باپ ہے ۔

    حضانتHizanat عربی لفظ ہے جو حضن Hizn سے آیا ہے جس کا معنی ہے گود ؛ چنانچہ جب ماں اپنے بچے کو آغوش میں لیتی ہے تو عرب بولتے ہیں : حضنت ولدها لسان العرب ، ج 13/122-123

جواب دیں۔

براؤز کریں۔