نماز میں توجہ کس طرح پیدا کی جا سکے؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ
    نماز ايک ملکوتى اور معنوى عمل ہے۔ اس کے ہر جزو ميں ايک مصلحت اور راز مخفى ہے۔ اللہ تعالى سے راز و نياز انس محبت کا وسيلہ ہے۔ قرب الہى اور تکامل کا بہترين ذریعہ ہے۔ مومن کے لئے معراج ہے۔ برائيوں اور منکرات سے روکنى والى ہے۔ معنويت اور روحانيت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے۔ جو بھى دن رات ميں پانچ دفعہ اس ميں جائے نفسانى آلودگى اور گندگى سے پاک ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالى کى بڑى امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معيار اور ترازو ہے۔
    ليکن اس کى شرط يہ ہے کہ اس ميں روح اور زندگى ہو۔ نماز کى روح حضور قلب اور معبود کى طرف توجہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے۔ رکوع، سجود قرات، ذکر، تشہد اور سلام نماز کى شکل اور صورت کو تشکيل ديتے ہيں لیکن اللہ تعالى کى طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کى مانند ہے۔ جيسے جسم روح کے بغير مردہ اور بے خاصيت ہے، نماز بھى بغير حضور قلب اور توجہ کے ایسی ہی ہے۔ بغیر روح نماز پڑھنے سے اگرچہ تکليف شرعى تو ساقط ہو جاتى ہے ليکن نماز پڑھنے والے کو اعلى مراتب حاصل نہیں ہو سکتے۔
    نماز کے قبول ہونے کا معيار حضور قلب کى مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز ميں حضور قلب ہوگا اتنا ہى نماز مورد قبول واقع ہوگي۔ اسى لئے احاديث ميں حضور قلب کى بہت زيادہ تاکيد کى گئي ہے۔ جيسے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے ”کبھى آدھى نماز قبول ہوتى ہے اور کبھى تيسرا حصہ اور کبھى چوتھائي اور کبھى پانچواں حصہ اور کبھى دسواں حصہ۔ بعض نمازيں پرانے کپڑے کى طرح لپيٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دى جاتى ہے۔ تيرى نماز اتنى مقدر قبول کى جائيگى جتنى مقدار تو خدا کى طرف توجہ کرے گا۔[۱]
    امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے کہ ” جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کى طرف توجہ کرتا ہے اور اپنى توجہ کو اس سے نہيں ہٹاتا مگر جب تين دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھى اس سے اعراض اور روگردانى کر ليتا ہے۔[۲]
    اب سوال یہ ہے کہ نماز میں حضور قلب کس طرح حاصل کیا جایے۔ اس سلسلہ میں علما نے قرآن اور احادیث کی روشنی میں بہت سے طریقے بیان کیے ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

    نماز میں حضور قلب اور توجہ کے اسباب
    1۔ گوشہ نشيني
    اگر مستحب يا فرادى نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسى تنہائي کے مکان کو منتخب کرے کہ جہاں شور و غل نہ ہو اور وہاں کوئي فوٹو و غيرہ يا کوئي ايسى چيز نہ ہو کہ جو نمازى کو اپنى طرف متوجہ کرے اور عمومى جگہ پر نماز نہ پڑھے اور اگر گھر ميں نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسى خاص گوشے کو منتخب کر لے اور ہميشہ وہاں نماز پڑھتا رہے۔ نماز کى حالت ميں صرف سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے يا اپنى آنکھوں کو بند رکھے اور ان ميں سے جو حضور قلب اور توجہ کے لئے بہتر ہو اسے اختيار کرے اور بہتر يہ ہے کہ چھوٹے کمرے يا ديوار کے نزديک نماز پڑھے کہ ديکھنے کے لئے زيادہ جگہ نہ ہو ۔ اگر نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ کرے اور اگر پيش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس کى قرائت کى طرف خوب توجہ کرے۔
    2۔ رکاوٹ کا دور کرنا
    نماز شروع کرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ کا مانع اور رکاوٹ ہے اسے دور کرے پھر نماز پڑھنے ميں مشغول ہو۔ اور اگر پيشاب اور پاخانے کا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس کے بعد وضو کرے اور نماز ميں مشغول ہو اور اگر سخت بھوک اور پياس لگى ہوئي ہو تو پہلے کھانا اور پانى پى لے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر پيٹ کھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر کرے يہاں تک کہ نماز پڑھنے کو دل چاہنے لگے۔
    اور اگر زيادہ تھکاوٹ يا نيند کے غلبے سے نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو۔ تو پہلے اپنى تھکاوٹ اور نيند کو دور کرے اس کے بعدنماز پڑھے۔ اور اگر کسى مطلب کے واضح نہ ہونے يا کسى واقعہ کے رونما ہونے سے پريشان ہو اگر ممکن ہو تو پہلے اس پريشانى کے اسباب کو دور کرے اور پھر نماز ميں مشغول ہو سب سے بڑى رکاوٹ دنياوى امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگى ہوا کرتى ہے۔ مال و متاع ، جاہ و جلال اور منصب و رياست اہل و عيال يہ وہ چيزيں ہيں جو حضور قب کى رکاوٹ ہيں ان چيزوں سے محبت انسان کے افکار کو نماز کى حالت ميں اپنى طرف مائل کر ديتے ہيں اور ذات الہى کى طرف متوجہ ہونے میں مانع ہيں۔ نماز کو ان امور سے قطع تعلق کرنا چاہئے تا کہ اس کى توجہ اور حضور قلب اللہ تعالى کى طرف آسان ہوجائے۔
    3۔ قوت ايمان
    انسان کى اللہ تعالى کى طرف توجہ اس کى معرفت اور شناخت کى مقدار کے برابر ہوتى ہے اگر کسى کا اللہ تعالى پر ايمان يقين کى حد تک پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالى کى قدرت، عظمت، علم، حضور اور اس کے محيط ہونے کا پورى طرح يقين رکھتا ہو تو وہ اللہ تعالى کے سامنے خضوع اور خشوع کرے گا۔ اور اس غفلت اور فراموشى کى گنجائش باقى نہيں رہے گي۔ جو شخص خدا کو حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے ديکھتا ہو تو نماز کى حالت ميں جو ذات الہى سے ہم کلامى کى حالت ہوتى ہے کبھى بھى اللہ تعالى کى ياد سے غافل نہيں ہوگا۔ جيسے اگر کوئي طاقت ور بادشاہ کے سامنے بات کر رہا ہو تو اس کے حواس اسى طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے کہ کيا کہہ رہا ہے اور کيا کر رہا ہے اگر کوئي اللہ تعالى کو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز کى حالت ميں اس سے غافل نہيں ہوگا لہذا انسان کو اپنے ايمان اور معرفت الہى کو کامل اور قوى کرنا چاہئے تا کہ نماز ميں اسے زيادہ حضور قلب حاصل ہوسکے۔
    پيغمبر اکرم نے فرمايا ہے کہ ” خدا کى اس طرح عبادت کرو کہ گويا تم اسے ديکھ ر ہے ہو اور اگر تم اسے نہيں ديکھ رہے تو وہ تمھیں ديکھ رہا ہے۔[۳]
    ابان بن تغلب کہتے ہيں کہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کى خدمت ميں عرض کيا کہ ميں نے امام زين العابدين عليہ السلام کو ديکھا ہے کہ آپ پر نماز ميں ايک رنگ آتا تھآ اور ایک جاتا تھا؟ آپ نے فرمايا ” ہاں وہ اس مبعود کو کہ جس کے سامنے کھڑے تھے کامل طور سے پہچانتے تھے۔[۴]
    4۔ موت کى ياد
    حضور قلب اور توجہ کے پيدا ہونے کى حالت کا ايک سبب موت کا ياد کرنا ہو سکتا ہے۔ اگر انسان متوجہ ہو کہ موت کا کوئي وقت نہيں ہوتا، ہر وقت اور ہر شرائط ميں موت کا واقع ہونا ممکن ہے يہاں تک کہ شايد يہى نماز اس کى آخرى نماز ہو تو اس حالت ميں وہ نماز کو غفلت سے نہيں پڑھے گا۔ بہتر ہے کہ انسان نماز سے پہلے مرنے کى فکر ميں جائے اور يوں تصور کرے کہ اس کے مرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائيل عليہ السلام اس کى روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہو چکے ہيں۔ وقت زيادہ نہيں رہ گيا اور اس کے اعمال کا دفتر اس کے بعد بند ہو جائيگا اور ابدى جہان کى طرف روانہ ہوجائے گا۔ وہاں اس کے اعمال کا حساب و کتاب ليا جائے گا جس کا نتيجہ يا ہميشہ کى سعادت اور اللہ تعالى کے مقرب بندوں کے ساتھ زندگى کرنا ہوگا يا بدبختى اور جہنم کے گڑھے ميں گر کر عذاب ميں مبتلا ہونا ہوگا۔
    اس طرح کى فکر سے نماز ميں حضور قلب اور توجہ بہتر طور پر پیدا پا سکتی ہے اور اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے ديکھ رہا ہوگا اور نماز کو خضوع اور خشوع کى حالت ميں آخرى نمازسمجھ کر بجا لائيگا۔ نماز کے شروع کرنے سے پہلے اس طرح کی حالت اپنے آپ ميں پيدا کرے اور نماز کے آخر تک يہى حالت باقى رکھے۔
    امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے کہ ” واجب نماز کو اس کے وقت ميں اس طرح ادا کرو کہ وہ تمہارى وداعى اور آخرى نماز ہے اور يہ خوف رہے کہ شايد اس کے بعد نماز پڑھنے کى توفيق حاصل نہ ہو۔ نماز پڑھنے کى حالت ميں سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے کہ تيرے نزديک کوئي تجھے ديکھ رہا ہے اور پھر تو نماز کو اچھى طرح پڑھنے لگے تو جان لے کہ تو اس ذات کے سامنے ہے جو تجھے ديکھ رہا ہے ليکن تو اس کو نہيں ديکھ رہا۔[۵]
    5۔ آمادگي
    جب نمازى نے تمام رکاوٹيں دور کر لى ہوں تو پھر کسى خلوت اور تنہائي کي مناسب جگہ جا کر نماز پڑھنے کے لئے تيار ہوجائے اور نماز شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالى کى بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنى ناتوانى اور کمزورى کی طرف توجہ کرے۔ اور یہ فکر کرے کہ وہ پروردگار اور تمام چيزوں کے مالک کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے ہمکلام ہے۔ ايسى عظيم ذات کے سامنے کھڑا ہے کہ جو تمام افکار يہاں تک کہ مخفى سوچ اور فکر کو جانتا ہے۔ بہشت اور دوزخ کو سامنے رکھے اور احتمال دے کہ شايد يہ اس کى آخرى نماز ہو اپنى اس سوچ اور فکر کو اتنی پختہ کرے کہ اس کى روح اس کى تابع اور مطيع ہوجائے۔ اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ کہے اور نماز کى طرف مہيا ہونے والى يہ دعا پڑھے ۔ اللّهُمَّ اِلَیْکَ تَوَجَّهْتُ، وَ مَرْضاتَکَ طَلَبْتُ، وَ ثَوابَکَ ابْتَغَیْتُ، وَ بِکَ آمَنْتُ، وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد، وَافْتَحْ قَلْبى لِذِکْرِکَ، وَثَبِّتْنى عَلى دینِکَ، وَلا تُزِغْ قَلْبى بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنى، وَهَبْ لى مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً، اِنَّکَ اَنْتَ الْوَهّابُ.
    اس دعا کے پڑھتے کے وقت ان کلمات کى معانى کى طرف توجہ کرے پھر يہ کہے ۔ يا محسن قد اتاک المسئي يا محسن احسن الي
    اگر حضور قلب اور توجہہ پيدا ہوجائے تو پھر تکبير الاحرام کہے اور نماز ميں مشغوول ہوجائے اور اگر احساس ہوکہ ابھى وہ حالت پيدا نہيں ہوئي تو پھر استغفار کرے اور شيطانى خيالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس کو تکرار کرے کہ اس ميں وہ حالت پيدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پيدا کر کے تکبيرة الاحرام کے معنى کى طرف توجہہ کرے نماز ميں مشغول ہوجائے ليکن متوجہ رہے کہ وہ کس ذات سے ہمکلام ہے اور کيا کہہ رہا ہے اور متوجہ رہے کہ زبان اور دل ايک دوسرے کے ہمراہ ہوں اور جھوٹ نہ بولے کيا جانتا ہے کہ اللہ اکبر کے معنى کيا ہيں؟ يعنى اللہ تعالى اس سے بلند و بالا ہے کہ اس کى تعريف اور وصف کى جا سکے درست متوجہ رہے کہ کيا کہتا ہے آيا جو کہہ رہا ہے اس پر ايمان بھى رکھتا ہے۔
    امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے کہ ” جب تو نماز کے قصد سے قبلہ رخ کھڑا ہو تو دنيا اور جو کچھ اس ميں ہے لوگوں اور ان کے حالات اور اعمال سب کو ايک دفعہ بھولا دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے ايسے کام سے جو تجھے ياد خدا سے روکتے ہوں دل سے نکال دے اور اپنى باطنى آنکھ سے ذات الہى کى عظمت اور جلال کا مشاہدہ کر اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے اس دن کے لئے حاضر جان کہ جس دن کے لئے تو نے اپنے اعمال اگلى دنيا کے لئے بھيجے ہيں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا کى طرف رجوع کريں گے اور نماز کى حالت ميں خوف اور اميد کے درميان رہ تکبرة الاحرام کہنے کے وقت جو کچھ زمين اور آسمان کے درميان ہے معمولى شمار کر کيونکہ جب نمازى تکبيرة الاحرام کہتا ہے خداوند عالم اسکے دل پر نگاہ کرتا ہے اگر تکبير کى حقيقت کى طرف متوجہ نہ ہو تو اسے کہتا ہے اے جھوٹے۔ مجھے دھوکا دينا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال کى قسم ميں تجھے اپنے ذکر کى لذت سے محروم کرونگا اور اپنے قرب اور اپنى مناجات کرنے کى لذت سے محروم کر دونگا۔[۶]
    نيت اور تکبرة الاحرام کے وقت اس طرح کى تيارى قلب کے حضور کے لئے بہت زيادہ اثر انداز ہوتى ہے ليکن سب سے مہم تر يہ ہے کہ ايسى حالت استمرار پيدا کرے اگر معمولى سے غفلت طارى ہوگئي تو انسان کى روح ادھر ادھر پرواز کرنے لگے گى اور حضور اور توجہ خداوند عالم کى طرف سے ہٹ جائيگي۔ لہذا نمازى کو تمام نماز کى حالت ميں اپنے نفس کى مراقبت اور حفاظت کرنى چاہئے اور مختلف خيالات اور افکار کو روکنا چاہئے ہميشہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے کہ خدا کے ساتھ کلام کر رہا ہے اور اس کے سامنے رکوع اور سجود کر رہا ہے اور کوشش کرے کہ قرائت کرتے وقت ان کے معانى کى طرف متوجہ رہے اور غور کرے کہ کيا کہہ رہا ہے اورکس عظيم ذات کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے اس حالت کو نماز کے آخر تک باقى رکھے گرچہ يہ کام بہت مشکل اور دشوار ہے ليکن نفس کى مراقبت اور کوشش کرنے سے آسان ہو سکتا ہے ۔ اگر اسے اس کى ابتداء ميں توفيق حاصل نہ ہو تو نااميد نہ ہو بلکہ پوری کوشش کر کے عمل ميں وارد ہو تا کہ تدريجاً نفس پر تسلط حاصل کرلے۔ مختلف خيالات کو دل سے نکالے اور اپنے آپ کو خدا کى طرف توجہ دے اگر ايک دن يا کئي ہفتے اور مہينے يہ ممکن نہ ہوا ہو تو مايوس اور نا اميد نہ ہو اور کوشش کرے کيونکہ يہ بہرحال ايک ممکن کام ہے۔ انسانوں کے درميان ايسے بزرگ انسان تھے اور ہيں کہ جو اول نماز سے آخر نماز تک پورا حضور قلب رکھے تھے اور نماز کى حالت ميں خدا کے علاوہ کسى طرف بالکل توجہ نہيں کرتے تھے۔ ہم بھى اس بلند و بالا مقام تک پہنچنے سے نا اميد نہ ہوں اگر کامل مرتبہ تک نہيں پہنچے پائے تو کم از کم جتنا ممکن ہے اس تک پہنچ جائيں تو اتنا ہى ہمارے لئے غنيمت ہے۔

    ۱۔ قال النبى صلّى اللّه عليه و آله: انّ من الصلوة لما يقبل نصفها و ثلثها و ربعها و خمسها الى العشر، و انّ منها لما يلفّ كما يلفّ الثوب الخلق فيضرب بها وجه صاحبها، و انّما لك من صلاتك ما اقبلت عليه بقلبك- بحار/ ج 84 ص 260.
    ۲۔ عن ابيعبد اللّه عليه السّلام يقول: اذا قام العبد الى الصلوة اقبل اللّه عزّ و جلّ عليه بوجهه فلا يزال مقبلا عليه حيث يلتفت ثلاث مرات فاذا التفت ثلاث مرات اعرض عنه- بحار/ ج 84 ص 241.
    ۳۔ قال النبى صلّى اللّه عليه و آله: اعبد اللّه کأنّک تراه فان کنت لا تراه فانّه يراک- نهج الفصاحة/ ص 65.
    ۴۔ ابان بن تغلب قال قلت لابيعبد اللّه عليه السّلام: انى رأيت على بن الحسين عليه السّلام اذا قام فى الصلوة غشى لونه لون آخر. فقال لى: و اللّه ان على بن الحسين کان يعرف الذى يقوم بين يديه بحار/ ج 84 ص 236.
    ۵۔ قال ابو عبد اللّه عليه السّلام: اذا صلّيت صلاة فريضة فصلّها صلاة مودّع يخاف ان لا يعود اليها ابدا. ثم اصرف ببصرک الى موضع سجودک، فلو تعلم من عن يمينک و شمالک لاحسنت صلاتک، و اعلم انک بين يدى من يراک و لا تراه- بحار/ ج 84 ص 233.
    ۶۔ قال الصادق عليه السّلام: اذا استقبلت فانس الدنيا و ما فيها و الخلق و ما هم فيه و استفرغ قلبک عن کل شاغل يشغلک عن اللّه و عاين بسرّک عظمة اللّه و اذکر وقوفک بين يديه تبلو کل نفس ما اسلفت و ردّوا الى اللّه مولاهم الحق. وقف على قدم الخوف و الرجاء فاذا کبّرت فاستصغر ما بين السماوات العلى و الثرى دون کبريائه: فان اللّه تعالى اذا اطلع على قلب العبد و هو يکبّر و فى قلبه عارض عن حقيقة تکبيرة قال: يا کاذب اتخدعنى؟ و عزتى و جلالى لا حرمنک حلاوة ذکرى و لا حجبنک عن قربى و المسارة بمناجاتى- بحار/ ج 84 ص

جواب دیں۔

براؤز کریں۔