نماز کو ہلکا سمجھنے والے کا کیا حکم ہے؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    مختصر جواب:
    نماز دین کا ستون اور اسلام کے اہم ترین واجبات میں سے ہے ۔ اسکو ترک کرنا یا ہلکا سمجھنا شرعا ًحرام ہے اور ایسا کرنے والا عذاب الہی کا مستحق ہے
    اجوبه الاستفتائات آیۃ اللہ خامنہ ای ۔ س 338
    آیہ اللہ سیستانی ۔ سوال نمبر ۴
    نمار دین کا ستون ہے اور اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن و احادیث میں مختلف مقامات پر اس پر تاکید کی گئی ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) نے اپنے اقوال اور اعمال و کردار کے ذریعے اس کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے اور ان کی سنت و سیرت مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ ہے، مگر شیطان نے اس اہم عبادت کو مختلف طریقوں سے اتنا حقیر اور چھوٹا کرکے دکھایا ہے کہ بعض لوگ نماز کے وقت اپنے ایسے کام میں مصروف رہتے ہیں جیسے کسی نے ان کو آواز دی ہی نہیں، جبکہ اللہ تعالی انہیں اذان کے مختلف فقروں سے بار بار، اپنی بارگاہ میں بلا رہا ہے۔ اگر نماز قضا ہوجائے تو بعض افراد کو کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوتی، بہت سارے لوگ نماز کو دیر سے پڑھتے ہیں، بعض لوگ اگر فضیلت کے وقت پر بھی پڑھیں تو سستی سے پڑھتے ہیں! اس کا نتیجہ اور نقصان کیا ہے؟
    حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نماز کو اہمیت دینے کے بارے میں فرماتے ہیں: "لا تَتَهاوَنْ بَصَلاتِكَ، فَإنَّ النَّبيَّ (صلى الله عليه وآله وسلم) قالَ عِنْدَ مَوْتِهِ: لَيْسَ مِنّى مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِهِ، لَيْسَ مِنّى، مَنْ شَرِبَ مُسْكِراً، لا يَرِدُ عَلَىّ الْحَوْضَ، لا وَ اللهِ[1]”، "اپنی نماز میں سستی نہ کرنا کیونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا کہ وہ شخص مجھ سے نہیں جو اپنی نماز کو حقیر سمجھے، وہ شخص مجھ سے نہیں جو نشہ آور چیز استعمال کرے، خدا کی قسم! وہ حوض کوثر پر میرے پاس نہیں پہنچے گا”۔
    اسی طرح پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں: ” الصَّلاةُ عِمادُ الدِّينِ، فَمَن تَرَكَ صلاتَهُ مُتَعَمِّدا فَقَد هَدَمَ دِينَهُ، و مَن تَرَكَ أوقاتَها يَدخُلُ الوَيلَ، و الوَيلُ وادٍ في جَهَنَّمَ كما قالَ اللّه ُ تعالى: «فَوَيلٌ لِلمُصَلِّينَ * الذينَ هُمْ عَن صَلاتِهِم ساهُونَ»[۲][۳]، "نماز دین کا ستون ہے، تو جو شخص اپنی نماز کو جانتے ہوئے چھوڑ دے اس نے اپنے دین کو برباد کردیا ہے اور جو اسے اس کے وقت پر بجا نہ لائے، وہ ویل میں داخل ہوگا اور ویل جہنم میں ایک وادی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "تو تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے، جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں”.
    واضح ہے کہ نماز نہ پڑھنا ایک گناہ ہے، لیکن پڑھنے کے باوجود نماز کو حقیر اور بے اہمیت سمجھنا دوسرا گناہ ہے۔ نماز کو حقیر سمجھنے سے مراد یہ ہے کہ جو کام بھی نماز کو اہمیت نہ دینے کے مرادف ہو جیسے وقت پر نماز نہ پڑھنا، وضو اور اس کی مقدمات میں غور نہ کرنا، نماز کے اعمال (جیسے قرائت، ذکر، رکوع، سجود، اطمینان) کو صحیح طریقہ سے بجا نہ لانا اور حضور قلب کے بغیر نماز پڑھنا، نماز کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھ سکنے کے باوجود نہ پڑھنا وغیرہ۔
    دیگر معصومین (علیہم السلام) نے بھی نماز کو حقیر سمجھنے کی مذمت کی ہے، جیسے:
    رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "لا يَنالُ شَفاعَتي مَنِ استَخَفَّ بِصلاتِهِ و لا يَرِدُ عَلَيَّ الحَوضَ لا و اللّه "[۴]، "میری شفاعت اس شخص تک نہیں پہنچے گی جو اپنی نماز کو حقیر سمجھے اور اللہ کی قسم! حوض (کوثر) کے کنارے میرے پاس نہیں آئے گا”۔
    جب حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی رحلت کا وقت قریب ہوا، آپ نے فرمایا:” إنَّ شَفاعَتَنا لَن تَنالَ مُستَخِفّا بِالصَّلاةِ "[۵] "نماز کو حقیر سمجھنے والے تک یقیناً ہماری شفاعت ہرگز نہیں پہنچے گی۔”
    یہ ساری احادیث اس شخص کے بارے میں نہیں ہیں جو نماز نہیں پڑھتا، بلکہ اسکے لئے ہیں جو نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس کو اہمیت نہیں دیتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ آدمی نمازی ہو اور فضیلت کے وقت میں پڑھتا ہو لیکن ہوسکتا ہے کہ نماز کو اس طریقہ سے بجالائے کہ اسے ہلکا کام سمجھے اور لاپرواہی سے پڑھ کر نماز سے فارغ ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کہ آدمی نماز کو فضیلت کے وقت میں بجالائے، لیکن نماز کے دیگر شرائط پر توجہ نہ کرے جس کی وجہ سے حقیر سمجھنا ثابت ہو۔ اور اگر کوئی خدا نخواستہ نماز پڑھتا ہی نہ ہو تو بھلا اسکی عاقبت کیا ہوگی؟؟!!
    ایسے افراد کو بعض روایات میں کافر کہا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: "ما بينَ المسلمِ و بينَ الكافِرِ إلاّ أن يَترُكَ الصَّلاةَ الفَريضَةَ مُتَعَمِّدا، أو يَتهاوَنَ بها فلا يُصَلِّيَها”[۶]، "مسلمان اور کافر کے درمیان فرق نہیں ہے سوائے واجب نماز کو جان بوجھ کر چھوڑ دے یا نماز کو حقیر سمجھ کر نہ پڑھے”۔
    قرآن اور روایات کی رو سے نماز نہ پڑھنے اور نماز پڑھنے کے باوجود اسے حقیر سمجھنے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور ان کے لئے مختلف عذاب بتائے گئے ہیں۔

    اسی طرح نماز کو ہلکا و سبک سمجھنے کے برے أثار و انجام کے بارے میں حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بابا رسول خدا (ص) سے ایک جھنجوڑ دینے والی روایت نقل فرمائی ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے بابا سے سوال فرمایا: ’’ فقالت: يا ابتاه ما لمن تَهاون بصلاته من الرجال و النساء‘‘۔بابا جو مرد اور عورتیں نماز کو ہلکا اور بے اہمیت سمجھتے ہیں ان کی سزا کیا ہوگی؟
    اللہ کے رسول(ص) نے فرمایا:اے فاطمہ(س)!جو مرد یا عورت نماز کو ہلکا سمجھتا ہے خداوند عالم اسے 15 مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے جن میں 6 مصیبتیں دنیا میں،3 مصیبتیں موت کے وقت،3 مصیبتیں اس کی قبر میں اور 3 مصیبتیں قیامت میں جب اسے قبر سے اٹھایا جائے گا۔
    وہ مصیبتیں جن میں انسان اس دنیا میں مبتلاء ہوگا:
    ۱۔اللہ اس کی عمر سے برکت اٹھا لےگا
    ۲۔اس کی روزی سے برکت اٹھا لی جائے گی۔
    ۳۔صالحین کی نشانی کو اس کے چہرے سے مٹا دے گا۔
    ۴۔اس کے ہر عمل پر ثواب اور جزا نہیں دی جائے گی۔
    ۵۔اس کی دعا آسمان تک نہیں پہونچے گی۔
    ۶۔صالحین کی دعاؤں میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔
    وہ مصبتیں جن میں انسان موت کے وقت مبتلا ہوگا:
    ۷۔وہ ذلیل ہوکر دنیا سے جائے گا۔
    ۸۔بھوکا اس دنیا سے اٹھے گا۔
    ۹۔پیاسا اس دنیا سے جائے گا۔اگرچہ دنیا کی سب نہروں کا پانی بھی اگر اسے پلا دیا جائے وہ ہرگز سیراب نہیں ہوگا۔
    قبر میں پیش آنے والی مصیبتیں:
    ۱۰۔اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں ایک فرشتے کو معین کرے گا جو ہر آن اسے اذیت پہونچاتا رہے گا۔
    ۱۱۔اس کی قبر اس کے لئے تنگ ہوجائے گی۔
    ۱۲۔اس کی قبر میں بلا کا اندھیرا ہوگا۔
    قبر سے اٹھتے وقت وہ جن مصیبتوں میں مبتلاء ہوگا:
    ۱۳۔اللہ ایک فرشتہ معین کرے گا جو اسے لوگوں کے سامنے سے،منھ کے بَل کھینچتا ہوا میدان حشر میں لائے گا۔
    ۱۴۔اس سے سختی سے پوچھ تاچھ کی جائے گی۔
    ۱۵۔خداوند عالم اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، اسے پاک نہیں کرے گا بلکہ اس کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔[۷]

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حوالہ جات:
    ۱۔ وسائل الشّيعة: ج 4، ص 23، ح 4413۔
    ۲۔ الماعون : 4 و 5 ۔ جامع الأخبار : 185/455۔
    ۳۔ جامع الأخبار : 185/455۔
    ۴۔ میزان الحکمہ، ج5، ص588
    ۵۔ میزان الحکمہ، ج5، ص588۔
    ۶۔ ثواب الأعمال : 275/1۔
    ۷۔ بحار الأنوار: ج 83 ص 21

جواب دیں۔

براؤز کریں۔