کتنی جگہوں پر قبر کھودنا ضروری ہے؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ
    اسلام میں جس طرح زندہ انسان کا احترام واجب ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی اسکا بدن محترم مانا جاتا ہے لہذا مسلمان کی میت کے ساتھ کوئی بھی ایسا کام جو اسکی بے حرمتی کا سبب بنے حرام اور گناہ ہے۔ انھیں موارد میں سے ایک نبش قبر ہے۔ کسی مسلمان کی نبش قبر یعنی اس کی قبر کا کھولنا خواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کیوں نہ ہو حرام ہے۔ (توضیح المسائل۔ مسئلہ نمبر۶۴۸)
    البتہ چند صورتیں ایسی ہیں جن میں قبر کا کھولنا حرام نہیں ہے:
    ا۔ جب میت کو غصبی زمین میں دفن کیا گیا ہو اور زمین کا مالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو۔
    ۲۔ جب کفن یا کوئی اور چیز جو میت کے ساتھ دفن کی گئی ہو غصبی ہو اور اس کا مالک اس بات پر رضامند نہ ہو کہ وہ قبر میں رہے اور اگر خود میت کے مال میں سے کوئی چیز جو اس کے وارثوں کو ملی ہو اس کے ساتھ دفن ہوگئی ہو اور اس کے وارث اس بات پر راضی نہ ہوں کہ وہ چیز قبر میں رہے تو اس کی بھی یہی صورت ہے البتہ اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ دعا یا قرآن مجید یا انگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اور اس کی وصیت پر عمل کیا گیا ہو تو ان چیزوں کو نکالنے کے لئے قبر کو نہیں کھولا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ان بعض صورتوں میں بھی جب زمین یا کفن میں سے کوئی ایک چیز غصبی ہو یا کوئی اور غصبی چیز میت کے ساتھ دفن ہو گئی ہو تو قبر کو نہیں کھولا جاسکتا۔ لیکن یہاں ان تمام صورتوں کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
    ۳۔ جب قبر کا کھولنا میت کی بے حرمتی کا موجب نہ ہو اور میت کو بغیر غسل دیئے یا بغیر کفن پہنائے دفن کیا گیا ہو یا پتہ چلے کہ میت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہیں دیا گیا تھا یا قبر میں قبلے کے رخ پر نہیں لٹایا گیا تھا۔
    ۴۔ جب کوئی ایسا حق ثابت کرنے کے لئے جو نبش قبر سے اہم ہو میت کا بدن دیکھنا ضروری ہو۔
    ۵۔ جب میت کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں اس کی بے حُرمتی ہوتی ہو مثلاً اسے کافروں کے قبرستان میں یا اس جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہو۔
    ۶۔ جب کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے۔ جس کی اہمیت قبر کھولنے سے زیادہ ہو مثلاً کسی زندہ بچے حاملہ عورت کے پیٹ سے نکالنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گیا ہو۔
    ۷۔ جب یہ خوف ہو کہ درندہ میت کو چیرپھاڑ ڈالے گا یا سیلاب اسے بہا لے جائے گا یا دشمن اسے نکال لے گا۔
    ۔ مندرجہ بالا سات موارد میں آیہ اللہ خامنہ ای اور آیہ اللہ سیستانی متفق ہیں۔ لیکن ایک مورد میں دونوں کی نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
    آٹھویں نمبر پر آیہ اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں:
    ۔ اگرمیت کے بدن کا کوئی حصہ دفن ہونے سے رہ گیا ہو اور اسکو اسکو میت کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہوں تو اسکے لیے قبر کو کھودا جا سکتا ہے لیکن احتےاط واجب یہ ہے کہ اس حصہ کو اس طرح قبر میں رکھیں کہ میت کا بدن دکھائی نہ دے۔
    جبکہ آیہ اللہ سیستانی آٹھویں نمبر پر فرماتے ہیں:
    ۔ میت نے وصیت کی ہو کہ اسے دفن کرنے سے پہلے مقدس مقامات کی طرف منتقل کیا جائے اور لے جاتے وقت اس کی بے حرمتی بھی نہ ہوتی ہو لیکن جان بوجھ کر یا بھولے سے کسی دوسری جگہ دفنا دیا گیا ہو تو بے حرمتی نہ ہونے کی صورت میں قبر کھول کر اسے مقدس مقامات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
    استفتا از دفتر آیہ اللہ خامنہ ای۔ استفتا نمبر 3mcH5ml28
    Leader.ir (Istifta)
    توضیح المسائل آیہ اللہ سیستانی مسئلہ۶۵۰
    https://www.sistani

جواب دیں۔

براؤز کریں۔