کیافاریکس مارکیٹ میں معاملات کرنا جائز ہے؟

سوال

کیا فاریکس (Forex) مارکیٹ (غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت) میں معاملات کرنا جائز ہے؟

Answer ( 1 )

  1. جواب

    سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    حضرت آیۃ العظمیٰ آقا ی حضرت خامنہ ای مد ظلہ فرماتے ہیں:

    بعض ماہرین کے بقول، فاریک سے بازار میں کام کرنے والے بروکرز یا ایجنٹس کی دو قسمیں ہیں
    ایک قسم ان ایجنٹس کی ہے (اور اکثر بروکر ہونے کا دعوا کرنے والے اسی قسم میں سے ہوتے ہیں) کہ جنہوں نے صرف انٹرنیٹ میں اپنا ایک پیج بنایا ہوا ہوتا ہے اور حقیقی طور پر فاریکس کے بازار میں موجود نہیں ہوتے، یہ لوگ گاہک سے پیسے لے کر انہیں اپنے مقاصد اور کاموں میں استعمال کرتے ہیں اور گاہک کے لئے صرف انٹرنیٹ میں ایک بیج بنا دیتے ہیں کہ جس میں وہ بظاہر کرنسی کے معاملات میں مصروف رہتا ہے، لہذا اس طرح انجام دیئے گئے معاملات اور لین دین غیر حقیقی اور باطل ہیں اور گاہک اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا مالک نہیں بنے گا۔
    دوسری قسم ان بروکرز اور ایجنٹس کی ہے جو حقیقی بروکرز ہوتے ہیں اور حقیقی طور پر کرنسی کے بازار میں فعالیت کرتے ہیں اور اپنے گاہک کے پیسوں سے کرنسی کی لین دین (خرید و فروخت) کرتے ہیں، ان کے معاملات شرعی اور قانونی اصول و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے صحیح ہیں لیکن مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے
    1- لین دین اور معاملات کا حقیقی طور پر اور کرنسی کی خرید و فروخت ہونا ضروری ہے، لہذا اگر کمائی کرنسی ریٹ کے اُتار چڑھاﺅ کی پیش بینی (Prediction) کی بنیاد پر ہو تو شرعی جواز نہیں رکھتی۔
    2- اہرمی معاملات (Leveraged trading) کہ جو بروکر سے کریڈٹ لے کر انجام دیئے جاتے ہیں اگر اس کی نوعیت منافع کے ساتھ قرض کی واپسی والی ہو تو سود اور حرام ہے۔

    حوالہ:

    https://www.leader.ir/ur/content/24707/

جواب دیں۔

براؤز کریں۔