کیا امام حسین کے قاتل شیعہ تھے ؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    حالانکہ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ مسئلہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا قاتل کون ہے لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ آنکھوں میں دھول جھونک کرعوام کو فریب دینے ، اسلامی اخوت میں زہر گھولنے اور نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی حدیث کے ایک فقرہ کو بہانہ بنا کر شیعوں کو امام کاقاتل ٹھہرارہے ہیں ؛ اس حدیث کو شیخ مفید نے اپنی کتاب الارشاد میں نقل کی ہے جس میں امام حسین علیہ السلام اپنے شیعوں سے مخاطب ہیں ۔

    بنی امیہ کے پیروکار کل بھی اور آج بھی حادثہ کربلا کے سلسلہ میں ہرگزایک موقف اختیار نہ سکے کبھی قیام امام حسین علیہ السلام کو بغاوت ، فتنہ گری ، تفرقہ ، تمرد کا نام دے کر امام حسین علیہ السلام کو نعوذباللہ خطاکار اور یزید کو امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حقدار سمجھتے ہیں ؛ اور اس سلسلہ میں رسول کی چند حدیثوں کی طرف استناد بھی کرتے ہیں جس میں تفرقہ پھیلانے والے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے ؛ اور آخر میں یہ کہہ کر یزید کا دامن صاف کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ «ان يزيد قتل الحسين بسيف جده»بے شک یزید نے حسین کو ان ہی کے جد کی تلوار سے قتل کیا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس صورت میں اس حقیقت کو تو مانتے ہی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قاتل یزید ہی ہے ۔

    بہت سے افراد ہیں جنہوں نے یزید کو قاتل امام جان کر یزید کو بے گناہ ثابت کرنے کی ناکام اور ناپاک کوشش کی ہے منجملہ ابن حجر هيثمي و محمد كرد علي و تقي الدين ابن الصلاح و غزالي، و ابن تيميه و غيره جیسے افراد؛ جن کے اقوال کتابوں میں درج ہیں، محققین مراجعہ کر سکتے ہیں۔

    مراجعه کریں: الفتاوي الحديثية، ص193.نيز مراجعه کریں: رساله ابن تيمية: سؤال در رابطه با يزيد بن معاويه ص 14 و 15 و 17، و كتاب العواصم من القواصم از ابن العربي ص 232 و233 و إحياء علوم الدين از غزالي، ج 3، ص 125 و الاتحاف بحب الأشراف، ص67 و 68 و الصواعق المحرقة، ابن حجر، ص 221 و خطط الشام، ج 1، ص 145 و قيد الشريد، ص 57 و 59.

    یا کبھی امام حسین علیہ السلام کو نعوذ باللہ خطاوار ٹھہراتے ہیں ، مثلا محمد خضري لکھتا ہے :

    الحسين أخطأ خطأ عظيماً في خروجه هذا الذي جر علي الأمة وبال الفرقة، وزعزع ألفتها إلي يومنا هذا…

    [امام] حسين [عليه السلام ] نے خروج کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے یہ امت تفرقہ میں گرفتار ہو گئی ہے، اور اس کی وحدت متزلزل ہو کے رہ گئی ہے اور آج تک ایسا ہی ہے

    محاضرات في تاريخ الأمم الإسلامية، ج 2، ص 129.

    شام کا مفتي محمد أبو اليسر عابدين کہتا ہے :

    بيعة يزيد شرعية، ومن خرج عليه كان باغياً.

    يزيد کی بيعت شرعي تھی اور جو بھی اس کے خلاف خروج کرے وہ باغی ہے .

    اغاليط المؤرخين، ص 120.

    سعودی مفتي اعظم عبدالعزيز آل الشيخ کہتا ہے :

    خلافة يزيد شرعية و خروج الحسين باطل.

    یزید کی خلافت شرعی تھی اور کا حسین خروج باطل تھا

    بعض لوگ تویزید کی حمایت میں یہاں تک بڑھ گئے کہ اسے صحابہ اور خلفاء راشدین مہدیین یا حتی انبیاء کے زمرہ میں شمار کر دیا

    رجوع كریں. منهاج السنة، ابن تيمية، ج 4، ص 549 به بعد.

    یا کچھ لوگ یزید کی دوسری طرح حمایت کرتے ہیں ، وہ لوگ یہ تو مانتے ہیں کہ یزید نے غلطی کی لیکن اس کی غلطی کم اہمیت ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ چونکہ وہ مجتہد تھا ، لہذا اس سے اجتہادی خطا سر زد ہوئی ہے ، بس ۔

    ابو الخير شافعي قزويني، يزيد کے اقدام کے سلسلہ میں کہتے ہیں :«إماماً مجتهداً» (يزيد امام و مجتهد تھا)

    تراجم رجال القرنين السادس والسابع، ص 6.

    لیکن جب یزید کی حمایت میں یہ سب حربے کارگر نہیں ہوتے تو سرے سے اس حقیقت ہی کا انکار کر دیتے ہیں کہ امام کو یزید نے قتل کیا،اور حقیقت کو الٹ کے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یزیدنے امام کو قتل نہیں کیا، یزید تو شام میں تھا امام حسین کو تو کوفیوں نے قتل کیا جو کہ شیعہ تھے ۔

    اس بیان کی بنیاد یہ ہے کہ امام کو کوفہ والوں نے قتل کیا اور کوفہ کے لوگ شیعہ تھے ، جنہوں نے امام کو خود خط لکھ کر بلایا پھر ان کے ساتھ دغا کی، اور انہیں قتل کر دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امام حسین علیہ السلام کی ایک حدیث کو بھی استناد کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں امام نے ان کی بے وفائی اور دغابازی کو بیان کیا ہے اور انہیں بد دعا دی ہے ، جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں :

    اللهم إن مَتَّعْتَهم إلي حين فَفَرِّقْهم فِرَقاً، واجعلهم طرائق قِدَداً، ولا تُرْضِ الوُلاةَ عنهم أبداً، فإنهم دَعَوْنا لِينصرونا، ثم عَدَوا علينا فقتلونا.

    بارالہا انہیں صرف کچھ مدت تک ہی دنیا کی نعمتوں سے نواز ، پھر ان میں پھوٹ اور تفرقہ ڈال دے ،انہیں ٹولیوں میں بانٹ دے،ان کے والی کبھی ان سے راضی نہ ہوں ، کیونکہ انہوں نے ہماری نصرت کے لئے ہمیں بلایا ، پھر ہمارے دشمن بن گئے ، اور ہمیں قتل کر دیا

    الإرشاد، شيخ مفيد، ج 2، ص 110.

    جواب :

    چونکہ یہاں ایک مدعی نہیں ہے بلکہ متعدد دعوے پیش کئے گئے ہیں لہذا ہم ایک ایک کا مستدل اور مختصر جواب دینگے :

    الف : صحابہ کے نزدیک یزید کی خلافت غیر مشروع
    امام حسین علیہ السلام خود تمام صحابہ کرام سے برتر و بالاتر ہیں ، امام کے ساتھ تمام صحابہ اہل حل و عقد نے بھی بالاتفاق یزید کی حکومت کو اسے فاسق ، فاجر ، شرابی ، وغیرہ قرار دے کر ردّ کر دیا تھا ؛ ایسی صورت میں یزید کی حکومت اور خلافت کے لئے کوئی جواز باقی نہیں رہتا،لہذا امام حسین علیہ السلام کو یزید کے خلاف قیام کی وجہ سے نعوذ باللہ باغی قرار دینا خود صحابہ کرام کے خلاف بغاوت ہے ۔

    ب ـ یزید کی جانب سے قتل امام کا فرمان
    یزید کو امام حسین علیہ السلام کا قاتل قرار دینے لے لئے اس کا کربلا میں ہونا ضروری نہیں ہے ، یزید نے ہر ظالم وجابر بادشاہ کی طرح امام کے قتل کا فرمان جاری کیا ، اور اس کے زیر حکومت افراد نے اس کی اطاعت کے سوا کچھ نہیں کیا ،اسی لئے ان کی ہر شکست یا کامیابی حاکم ہی کی طرف نسبت دی جاتی ہے ، لہذا یزید کو اس جرم سے بری کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے ۔

    اس سلسلہ میں ذہبی لکھتا ہے :

    خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال،وعندها تعتق أو تعود عبدا.فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه.

    حسین کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو یزید نے حاکم عراق عبید اللہ بن زیاد کو خط لکھا: آگاہ رہو کہ حسین کوفہ کی جانب آ رہے ہیں ، شہروں میں سے تمہارا شہر اور زمان میں سے تمہارا زمان حکومت خطرہ میں ہے ، اب حاکموں میں سے تم منتخب ہو چاہو تو آزاد ہو جاو، یا خود غلام اور بندہ ہو جاو؛ لہذا ابن زیاد نے حسین کو قتل کر دیا اور ان کا سر یزید کے لئے روانہ کر دیا ۔

    نيز اسی سلسلہ میں سيوطي لکھتا ہے :

    فكتب يزيد إلي واليه بالعراق،عبيد الله بن زياد بقتاله.

    تو یزید نے عراق کے والی عبید اللہ ابن زیاد کو حسین کےقتل کا حکم دیا

    تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت.

    خود ابن زياد امام حسین علیہ السلام کے قتل کے سلسلہ میں مسافر بن شريح يشكري سے کہتا ہے :

    أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله.

    یہ جو میں نے حسین کو قتل کیا تو اس لئے کہ یزید نے مجھے ان کے قتل یا خود اپنے قتل پر مخیر کیا تھا لہذا مجھے حسین کے قتل کو اخیار کرنا پڑا ۔

    الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324.

    ابن زياد امام حسين عليه السلام کو خط لکھتے ہوئے کہتا ہے:

    قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أوألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام.

    مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کربلا تک پہنچ چکے ہیں ، یزید نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں نرم بستر پہ نہ سووں، روٹی پیٹ بھر نہ کھاوں یہاں تک کہ آپ کو قتل کر کے خدا کے پاس بھیج دوں یا آپ میری اور یزید کی حکومت کو تسلیم کر لیں ۔ والسلام ۔

    بحار الأنوار، علامه مجلسي، ج 44، ص 383 ـمقتل العوالم، ص 243 ـ الفتوح، ابن أعثم، ج 3 و ج 5، ص 85.

    يعقوبي کہتا ہے : يزيد ایک خط میں ابن زياد کو لکھتا ہے :

    قد بلغني: أن أهل الكوفة قد كتبوا إلي الحسين في القدوم عليهم، وأنه قد خرج من مكة متوجهاً نحوهم، وقد بلي به بلدك من بين البلدان، وأيامك من بين الأيام،فإن قتلته، وإلا رجعت إلينسبك وأبيك عبيد، فاحذر أن يفوت.

    مجھے پتہ چلا ہے کہ کوفہ والوں نے حسین کو کوفہ آنے کے لئے خطوط لکھے ہیں، اور وہ بھی مکہ سے ان کی جانب آنے کے لئے نکل چکے ہیں ، لہذا شہروں میں تیرا شہر اور زمانوں میں تیرا زمان حکومت خطرہ میں ہے ، تو اگر تم نے ان کا قتل کر دیا تو ٹھیک ، ورنہ اپنے خاندان اور باپ دادا کی طرح عبد اور غلام بنا دیئے جاوگے ، پس ڈرو کہ کہیں چوک نہ ہو جائے ۔

    تاريخ يعقوبي، ج 2، ص 242، چاپ صادر.كتاب الفتوح.

    نیز دوسری جگہ اس طرح بیان ہوا ہے :

    إن يزيد قد أنفذ عمرو بن سعيد بن العاص في عسكر علي الحاج، وولاه أمر الموسم، وأوصاهبالفتك بالإمام الحسينعليه السلام، أينما وجد.

    یزید نے عمرو ابن سعید ابن عاص کو موسم حج میں حاجیوں کا سرپرست اور ان پر ایک لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا تھا اور اسے تاکید کی تھی کہ جہاں بھی حسین کو پانا ان پر دھاوا بول دینا ۔

    المنتخب، طريحي، ج 3، ص 304، الليلة العاشرة.

    بعض دیگر تاریخی کتابوں میں آیا ہے کہ یزید نے پہلے والی مدینہ ولید ابن عتبہ کو لکھا تھا :

    خذ الحسينوعبد الله بن عمر، وعبد الرحمان بن أبي بكر، وعبد الله بن الزبير بالبيعة أخذاً شديداً، ومن أبيفاضرب عنقه، وابعث إلي برأسه.

    حسین ابن علی ، عبد اللہ ابن عمر ، وعبد الرحمان بن أبي بكر، وعبد الله بن زبير کو گرفتار کر کے ان سے سختی سے بیعت لو ؛ اور اگر کسی نے انکار کیا تو اس کی گردن اڑا دو ؛ اور اس کا سر میرے پاس بھیج دو۔

    مقتل الحسين خوارزمي، ج 1، ص 178 و 180 ـ مناقب آل أبي طالب، ج 4، ص 88 چاپ مكتبة مصطفوي ـ قم ـ إيران ـ الفتوح، ابن أعثم، ج 5، ص 10.

    نیز يعقوبي کی روایت کے مطابق:

    إذا أتاك كتابي، فاحضر الحسين بن علي، وعبد الله بن الزبير، فخذهما بالبيعة، فإن امتنعا فاضرب أعناقهما،وابعث إليّ برأسيهما، وخذ الناس بالبيعة، فمن امتنع فانفذ فيه الحكم وفي الحسين بن علي وعبد الله بن الزبير والسلام.

    جیسے ہی میرا یہ خط تمہیں ملے ، حسین ابن علی اور عبد اللہ ابن زبیر کو حاضر کرو ، اور ان سے بیعت طلب کرو ، تو اگر منع کریں تو ان کی گردن اڑا دو ، اور ان کا سر میرے پاس بھیج دو ، اور لوگوں سے بھی بیعت لو ، اور بھی انکار کرے اس کے لئے بھی اور حسین ابن علی اور عبد اللہ ابن زبیر کے لئے بھی یہی حکم نافذ کرو ۔والسلام۔

    تاريخ يعقوبي، ج 2، ص 241.

    یزید نے والی مدینہ کو مزید لکھا :

    وعجل علي بجوابه، وبين لي في كتابك كل من في طاعتي، أو خرج عنها،وليكن مع الجوابرأسالحسين بنعلي.

    میرے خط کا جواب جلد دو ، اور اس میں بیان کرو کہ کون میری اطاعت میں ہے اور کون اس سے خارج ہے ، لیکن خط کے جواب کے ساتھ حسین کا سر بھی بھیجنا ۔

    ألامالي، شيخ صدوق، ص 134 و 135 چاپ سال 1389 نجف أشرف عراق ـ بحار الانوار، ج 44، ص 312.

    ایک دوسری عبارت میں آیا ہے کہ جب ولید ابن عتبہ نے امام حسين عليه السلام و ابن زبير کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات سے یزید کو آگاہ کیا تو یزید کو غصہ آ گیا اور اسے خط لکھا :

    إذا ورد عليك كتابي هذا، فخذ بالبيعة ثانياً علي أهل المدينة بتوكيد منك عليهم، وذر عبد الله بن الزبير، فإنه لن يفوتنا، ولن ينجو منا أبداً ما دام حياً، وليكن مع جوابك إلي،رأس الحسينبن علي، فإن فعلت ذلك فقد جعلت لك أعنة الخيل، ولك عندي الجائزة والحظ الأوفر الخ.

    جیسے ہی میرا یہ خط ملے ، تو مدینہ والوں سے ہہلی بیعت پر تاکید کے عنوان سے دوبارہ بیعت لو، اور عبد اللہ ابن زبیر کو چھوڑ دو ، اس سے بیعت لینے کی اتنی جلدی نہیں ہے ، اور جب تک وہ زندہ ہے ہمارے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا ، لیکن اپنے جواب کے ساتھ حسین ابن علی کا سر ضرور بھیجنا ، اگر تم نے ایسا کیا تو گھڑسوار لشکر کے تم سردار ہو اور میرے پاس تمہارے لئے بہت سے انعام اور ہدایا ہیں ۔ ۔ ۔

    الفتوح، ابن أعثم، ج 3، جزء 5، ص 18.

    ابن عساكر کہتا ہے :

    بلغيزيدخروجه، فكتب إلي عبيد الله بن زياد، وهو عامله علي العراق،يأمره بمحاربته، وحمله إليه إن ظفر به.

    یزید کو حسین کے خروج کی اطلاع ملی ، تو اس نے عبید اللہ ابن زیاد کو خط لکھا جو عراق میں اس کا گماشتہ تھا ، یزید نے اسے حسین کے ساتھ جنگ کرنے کا اور کامیابی کے بعد ان کا سر بھیجنے کا حکم دیا۔

    تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.

    اس طرح کے دسیوں نہیں سینکڑوں حوالے اور تاریخی دستاویزات موجود ہیں جو یزید کے قاتل امام ہونے پر واضح اور محکم دلیل ہیں، یزید ابتدا سےیعنی مدینہ میں طلب بیعت سے ہی والی مدینہ کو امام کے قتل کا حکم دے رہا ہے؛ مکہ میں بھی والی مکہ کو امام پر حملہ کرنے حکم؛ پھر عبید اللہ کو مامور کرنا ؛ پھر سرہائے اقدس کو شام طلب کرنا ؛ اہل حرم کو اسیر بنانا ؛ بازار سجانا ؛ دربار میں جشن منانا ؛ امام کے سر اقدس کے ساتھ بے حرمتی کرنا ؛ یہ سب یزید کے اور تنہا یزید کے جرائم ہیں ؛ ان سب کے ہوتے ہوئے بعد میں یزید کی اظہار بے گناہی منافقت کے سوا کچھ نہیں ؛ یزید نے جب اپنے آپ کو شکست خوردہ اور اپنی حکومت کو جب ڈگمگاتا ہوا پایا تو نہایت ذلت اور منافقت کے ساتھ اپنی بے گناہی اور ابن زياد ، عمر بن سعد اور شمر بن ذي الجوشن و غيره کی زیادتیوں کا اعلان کرنے لگا۔

    ظاہر سی بات ہے یزید کا جرم ابن زياد ، عمر بن سعد اور شمر بن ذي الجوشن و غيره لوگوں سے کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے ، اصل مجرم یزید ہی ہے ، پھر بھی جب یہی مجرم شکست خوردہ منافقانہ انداز میں خود کو بری کر کے دوسروں کو گناہگار قرار دے رہا ہے ، تو بھی ابن زياد ، عمر بن سعد اور شمر بن ذي الجوشن جیسوں کا نام لے رہا ہے شیعوں کا نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ یزید کو بری کرنے کے لئے شیعوں پہ الزام لگاتے ہیں وہ لوگ یزید سے بھی گئے گذرے ہیں ۔

    یزیدیت ترے ماتھے پہ جو پسینہ ہے

    خدا کا خوف نہیں ہے یہ ڈر حسین کا ہے

    امام حسين عليه السلام کی بد دعا کی حقیقت :
    امام حسین علیہ السلام نے کوفہ والوں کو ان کی بے وفائی کے سبب بد دعا دی ؛ بعض لوگ یہ مفروضہ مسلم سمجھ کے کہ کوفہ والے شیعہ تھے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام نے شیعوں کو بد دعا دی ہے کیونکہ پہلے انہوں نے امام کی بیعت کی پھر امام کے ساتھ بے وفائی کر کے ان کے ساتھ جنگ کی او ر انہیں قتل کر دیا ۔

    لیکن یہی مفروضہ کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں کوفہ والے سب شیعہ تھے، یا کوفہ کی اکثریت شیعہ تھی ، یا حتی شیعہ بھاری تعداد میں تھے ، یہ سب مفروضے تاریخی اعتبار سے غلط ہیں، کیونکہ معاویہ کے زمانے سے جب سے زیاد بن ابیہ کوفہ کا والی قرار پایا تب سے جس طرح سے شیعوں کا قتل عام ہوا ہے تو امام حسین علیہ السلام کے زمانہ تک کوفہ شیعہ بہت ہی کم بچے تھے، جن میں سے زیادہ تر زندانوں میں گرفتار تھے ۔بہرحال کربلا میں لشکر عمروسعد میں جو کوفی تھے ان میں کوئی بھی شیعہ نہیں تھا ؛ وہ لوگ کون تھے ؟ مختلف قسم کے لوگ تھے لیکن جو بھی ہوں ، شیعہ تو بہرحال نہیں تھے ۔ اس سلسلہ میں مرحوم سيد محسن امين كتاب اعيان الشيعه میں فرماتے ہیں :

    حاش لله أن يكون الذين قتلوه هم شيعته، بل الذين قتلوه بعضهم أهل طمع لا يرجع إلي دين، وبعضهم أجلاف أشرار، وبعضهم اتبعوا روءساءهم الذين قادهم حب الدنيا إلي قتاله، ولم يكن فيهم من شيعته ومحبيه أحد، أما شيعته المخلصون فكانوا له أنصاراً، وما برحوا حتي قتلوا دونه، ونصروه بكل ما في جهدهم، إلي آخر ساعة من حياتهم، وكثير منهم لم يتمكن من نصرته، أو لم يكن عالماً بأن الأمر سينتهي إلي ما انتهي إليه، وبعضهم خاطر بنفسه، وخرق الحصار الذي ضربه ابن زياد علي الكوفة، وجاء لنصرته حتي قتل معه، أما ان أحداً من شيعته ومحبيه قاتله فذلك لم يكن، وهل يعتقد أحد إن شيعته الخلص كانت لهم كثرة مفرطة؟ كلا، فما زال أتباع الحق في كل زمان أقل قليل، ويعلم ذلك بالعيان، وبقوله تعالي: «وقليل من عبادي الشكور.

    ہرگز ہرگز ممکن نہیں کہ امام کو شہید کرنے والے خود ان ہی کے شیعہ ہوں ، بلکہ آپ کو شہید کرنے والے بعض لالچی دنیا پرست تھے جو سرے سے کسی دین و مذہب کے ماننے والے نہیں تھے ، بعض شرپسند اراذل و اوباش تھے ، اور کچھ لوگ کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی بس اپنے سرداروں کی پیروی میں حب دنیا کی وجہ سے جنگ کے لئے آ گئے تھے ، اور ان میں ایک فرد بھی ان کا شیعہ بلکہ ان کا چاہنے والا بھی کوئی نہیں تھا، جو آپ کے شیعہ تھے وہ سب آخر تک آپ کے انصار تھے ، اور آپ کے رکاب رہے یہاں تک کہ اپنی جان کو آپ پر قربان کردیا ، اور اپنے خون کے آخری قطرہ تک اور اپنی زندگی کی آخری سانسوں آپ کی نصرت کی ، ہاں ان میں بہت سے تھے جو نہیں پہنچ سکے اور نصرت نہیں کر سکے ، یا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بات اس حد تک بگڑ جائے گی ، البتہ بعض لوگوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس حصار کو توڑ ا جو کوفہ کو گھیرا ہوا تھا اور اپنے آپ کو امام کی خدمت میں کربلا تک پہنچایا اور آپ کے رکاب میں شہید بھی ہوئے ۔ لیکن یہ دعوا سراسر غلط ہے کہ امام کے خلاف شیعوں میں سے کوئی تھا ، کیا یہ معقول ہے کہ کوئی کسی کو دوست رکھتا ہو بلکہ شدت سے محبت کرتا ہو ، بلکہ معتقد ہو ، اس کے باوجود ان سے بر سرپیکار بھی ہو؟ ہرگزہرگز یہ ممکن نہیں ۔ ہمیشہ ہر زمانے میں ریت ایسی رہی ہے کہ حق کے پرستار کم رہے ہیں ، اور یہ بات بہت واضح بھی ہے ، خداوند عالم کا ارشاد ہے «وقليل من عبادي الشكور» «میرے بندوں میں شکر گزار کم ہیں »۔

    أعيان الشيعة، ج 1، ص 585.

    کوفہ شیعوں سے خالی :
    اس شبہہ کی اصل بنیاد اس مفروضہ پر قائم ہے کہ کوفہ والے شیعہ تھے اور کربلا میں امام کے خلاف لشکر کوفہ سے آیا تھا نہ کہ شام سے ؛ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوفہ شیعوں سے خالی ہو چکا تھا۔

    ابن أبي الحديد معتزلي اس سلسلہ لکھتے ہیں :

    كتب معاوية نسخة واحدة إلي عُمَّاله بعد عام الجُماعة: (أن برئت الذمّة ممن روي شيئاً من فضل أبي تراب وأهل بيته). فقامت الخطباءفي كل كُورة وعلي كل منبريلعنون عليًّاويبرأون منه، ويقعون فيه وفي أهل بيته، وكانأشد الناس بلاءاًحينئذأهل الكوفةلكثرة ما بها من شيعة علي عليه السلام، فاستعمل عليهم زياد بن سُميّة، وضم إليه البصرة، فكان يتتبّع الشيعة وهو بهم عارف، لأنه كان منهم أيام علي عليه السلام، فقتلهم تحت كل حَجَر ومَدَر وأخافهم، وقطع الأيدي والأرجل، وسَمَل العيون وصلبهم علي جذوع النخل، وطردهم وشرّدهم عن العراق، فلم يبق بها معروف منهم.

    جس سال اجتماع ہوا تھا اس کے بعد معاویہ نے اپنے تمام کارندوں کو ایک ہی مضمون کا خط لکھا اور وہ کہ: جو بھی ابو تراب اور ان کے اہل بیت کی فضیلت میں ایک بھی حدیث نقل کرے اس کا خون میرے ذمہ نہیں وہ قتل کردیا جائے گا۔

    پھر کیا تھا ہر ہر گوشہ میں ہر منبر پر بکے ہوئے خطیب منبروں پہ جاتے علی علیہ السلام کو لعنت کرتے ،اور ان سے برائت کا اعلان کرتے ، اور ان کے بارے میں اور ان کے اہل بیت کے بارے میں برا بھلا کہتے ، اس وقت سب سے زیادہ جو مصیبتوں میں گرفتار تھے اہل کوفہ تھے ؛ کیونکہ وہاں شیعیان علی علیہ السلام کی اکثریت تھی؛ اسی لئے وہاں زیاد بن سمیہ کو گماشتہ کیا گیا؛اور بصرہ کو بھی کوفہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ؛ تو اس نے شیعیان علی علیہ السلام کا تعاقب شروع کر دیا ؛ اور وہ انہیں خوب پہچانتا تھا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں وہ اپنے کو انہیں میں سے بتاتاتھا؛ پس جہاں جیسے جس پناہ گاہوں اور مخفی گاہوں میں انہیں پاتا قتل کر ڈالتا؛ ان پر خوف طاری کرتا ؛ ان کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالتا ؛ آنکھوں کو اندھا کر دیتا ؛ انہیں کھجور کے پیڑوں پر سولی چڑھا دیتا اور انہیں عراق سے نکلنے اور وہاں سے دور ہو جانے پر مجبور کر دیتا تھا ؛ یہاں تک کہ وہاں کوئی بھی ایسا نہ بچا جو شیعہ علی علیہ السلام کے عنوان سے پہچانا جاتا ہو ۔

    شرح نهج البلاغة، ج11، ص 44 ـ النصايح الكافية، محمد بن عقيل، ص 72.

    طبرانی اپنی کتاب معجم الکبیر میں يونس بن عبيد عن الحسن کی سند کے ساتھ نقل کرتا ہے :

    كان زياد يتتبع شيعة علي رضي الله عنه فيقتلهم، فبلغ ذلك الحسن بن علي رضي الله عنه فقال: اللهم تفرَّد بموته، فإن القتل كفارة.

    زیاد شیعیان علی رضی اللہ عنہ کا تعاقب کرتا تھا اور انہیں قتل کر ڈالتا تھا ؛ توجب اس بات کی خبر حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہیں کہا : خدایا اس کی موت کے ذریعہ اس سے چھٹکارا دے کیونکہ بے اس کا کفارہ موت ہے ۔

    المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص 68 ـ مجمع الزوائد، هيثمي، ج 6، ص 266.

    هيثمي اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتا ہے :

    رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح.

    اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور اس کے رجال سب کے سب صحیح ہیں ۔

    اسی طرح ذهبي کتاب سير أعلام النبلاء میں کہتا ہے :

    قال أبو الشعثاء: كان زياد أفتك من الحجاج لمن يخالف هواه.

    أبو الشعثاء کہتا ہے : زياد اپنے مخالفوں کے بارہ میں حجاج سے زیادہ خونخوار تھا.

    حسن بصري کہتا ہے :

    بلغ الحسن بن علي أن زياداً يتتبَّع شيعة علي بالبصرة فيقتلهم، فدعا عليه. وقيل: إنه جمع أهل الكوفة ليعرضهم علي البراءة من أبي الحسن، فأصابه حينئذ طاعون في سنة ثلاث وخمسين.

    حسن بن علی کو خبر ملی کہ زیاد ابن ابیہ عراق میں شیعیان علی کا تعاقب کر رہا ہے اور انہیں قتل کر دے رہا ہے، تو انہیں نے اسے بد دعا دی۔ اور نقل ہوا ہے : اس نے تمام اہل کوفہ کو اکٹھا کیا تاکہ ابو الحسن سے اظہار برائت کریں ، تو اسی وقت وہ طاعون کے مرض میں گرفتار ہو گیا؛ یہ سنہ ترپن ۵۳ ہجری کی بات ہے ۔

    سير أعلام النبلاء، ج 3، ص496.

    ابن اثیر کتاب الکامل میں کہتا ہے :

    وكان زياد أول من شدد أمر السلطان، وأكّد الملك لمعاوية، وجرَّد سيفه، وأخذ بالظنة، وعاقب علي الشبهة، وخافه الناس خوفاً شديداً حتي أمن بعضهم بعضاً.

    زیاد وہ پہلا شخص تھا جس نے شدّت کے ساتھ سلطنت قائم کی ؛ اور معاویہ کی ملوکیت کو پر زور کیا ؛ اور اپنی تلوار کو نیام سے نکال لیا ؛ ایک معمولی سے ظن کی بنا پر گرفتار کرتا ، اور ایک شبھہ کی بنا پر سزا دیتا تھا ؛ لوگوں اس سے شدید خوف بیٹھ گیا تھا ؛ یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے کو پناہ دیا کرتے تھے ۔

    الكامل في التاريخ، ابن اثير، ج 3، ص450.

    ابن حجر کتاب لسان الميزان میں لکھتا ہے :

    وكان زياد قوي المعرفة، جيد السياسة، وافر العقل، وكان من شيعة علي، وولاَّه إمرة القدس، فلما استلحقه معاوية صار أشد الناس علي آل علي وشيعته، وهو الذي سعي في قتل حجر بن عدي ومن معه.

    زیاد ابن ابیہ علم میں قوی ، سیاست میں اچھا ، بڑا عقل مند شخص تھا ، اور وہ علی کے شیعوں میں سے تھا ، انہوں نے اسے قدس کا والی بھی مقرر کیا تھا ، لیکن جب معاویہ نے اسے اپنی طرف بلالیا، تو وہ علی و آل علی اور ان کے شیعوں کا سخت ترین دشمن بن گیا، اسی نے جناب حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کروایا ہے ۔

    لسان الميزان، ابن حجر، ج 2، ص 495.

    لہذا امام حسین علیہ السلام کے زمانہ میں کوفہ میں اتنے شیعہ تھے ہی نہیں؛ خاص طور سے خط لکھنے والوں میں سے مشہور شخصیتیں شبث بن ربعي و حجار بن أبجر و عمرو بن حجاج جیسوں کی ہے ، جن کے بارے میں کسی نے نہیں کہا ہے کہ یہ لوگ شیعہ تھے ۔

    عمری ہونا کوفیوں کی پہچان :
    نقل و حکایات اور تاریخی دستاویزات کے مطابق کوفہ کی اکثریت خلفائے ثلاثہ خاص کر عمر کی پیروکار تھی ؛ یہاں تک کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے خلافت کو سنبھالا تو آپ نے عمر کی ایجاد کردہ ایک بدعت یعنی نماز تراویح کو روکنا چاہا؛ چنانچہ آپ نے امام حسن علیہ السلام کو حکم دیا کہ مسجد میں جا کے لوگوں کو منع کرو؛ جونہی امام نے اپنی مخالفت کا اظہار کیا ، لوگوں میں ہنگامہ ہو گیا اور «وا عمراه، وا عمراه» ہائے سنت عمر ، ہائے سنت عمر کا شور مچ گیا۔ جب امام نے یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا : «قل لهم صلوا»ان سے کہو جس طرح نماز پڑھنا چاہیں ، پڑھیں ۔

    وقد روي : أن عمر خرج في شهر رمضان ليلا فرأي المصابيح في المسجد ، فقال : ما هذا ؟ فقيل له: إن الناس قد اجتمعوا لصلاة التطوع ، فقال : بدعة فنعمت البدعة ! فاعترف كما تري بأنها بدعة، وقد شهد الرسول صلي الله عليه وآله أن كل بدعة ضلالة .

    وقد روي أن أمير المؤمنين عليه السلام لما اجتمعوا إليه بالكوفة فسألوه أن ينصب لهم إماما يصلي بهم نافلة شهر رمضان ، زجرهم وعرفهم أن ذلك خلاف السنة فتركوه واجتمعوا لأنفسهم وقدموا بعضهم فبعث إليهم ابنه الحسن عليه السلام فدخل عليهم المسجد ومعه الدرة فلما رأوه تبادروا الأبواب وصاحوا وا عمراه !

    روایت میں ہے کہ ماہ رمضان میں ایک رات عمر باہر آئے ، دیکھا کہ مسجد کی چراغیں روشن ہیں ، پوچھا: ماجرا کیا ہے؟ کہا گیا : لوگ رمضان کی مستحب نماز با جماعت پڑھنے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں ، عمر نے کہا : بدعت ہے لیکن اچھی بدعت ہے ۔ پس خود عمر نے اعتراف کیا ہے کہ بدعت تو ہے لیکن ان کے بقول اچھی بدعت ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کے مطابق ہر بدعت ضلالت و گمراہی ہے ۔

    روایت میں آیا ہے کہ جب کوفہ میں لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کے یہاں اکٹھا ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ ماہ رمضان کی نافلہ یعنی تراویح پڑھانے کے لئے کوئی پیش نماز مقرر کریں ،تو آپ نے انہیں توبیخ کی اور سمجھایا کہ یہ خلاف سنت ہے ؛ تو لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا خود جا کے جمع ہوئے اور خود ہی کسی کو پیش نماز چن لیا ؛ تو آپ نے اپنے بیٹے حسن کو ان کی جانب روانہ کیا تا کہ انہیں اس بدعت سے روکیں ، وہ مسجد میں آئے جب کہ ان کے ہاتھ اقتدار بھی تھا ؛لیکن جیسے ہی لوگوں نے انہیں آتے دیکھا دروازوں سے ہی کھڑے ہو کر چلانا شروع کر دیا : ہائے عمر ہائے عمر۔

    شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد از علماي اهل سنت، ج 12، ص 283 ـ وسائل الشيعة (الإسلامية) مرحوم حر عاملي از علماي شيعه، ج 5، ص 192، ح 2.

    یہ فتنہ اتنا بڑھ گیا کہ حضرت نے ایک طویل خطبے میں اس سلسلہ میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : مجھے عوامی فسادات بغاوت اور اسلامی حکومت کی بنیادوں کے متزلزل ہونے کا خوف تھا …اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوفہ کی اکثریت عمر کی پیروکار تھی جو ان کے شیعہ ہونے سے مغایرت رکھتی۔

    علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسي، عن إبراهيم بن عثمان، عن سليم بن قيس الهلالي قال: خطب أمير المؤمنين عليه السلام فحمد الله وأثني عليه ثم صلي علي النبي صلي الله عليه وآله، ثم قال… قدعملت الولاة قبليأعمالاخالفوا فيهارسول الله صلي الله عليه وآلهمتعمدين لخلافه، ناقضين لعهده مغيرين لسنته ولو حملت الناس علي تركها وحولتها إلي مواضعها وإلي ما كانت في عهد رسول الله صلي الله عليه وآله لتفرق عني جندي حتي أبقي وحدي أو قليل من شيعتي الذين عرفوا فضلي وفرض إمامتي من كتاب الله عز وجل وسنة رسول الله صلي الله عليه وآله …واللهلقدأمرت الناسأنلا يجتمعوا في شهر رمضانإلا في فريضةوأعلمتهم أن اجتماعهم في النوافلبدعةفتنادي بعض أهل عسكريممن يقاتل معي:يا أهل الاسلام غيرت سنة عمرينهانا عن الصلاة في شهر رمضان تطوعا ولقد خفت أن يثوروا في ناحية جانب عسكري ما لقيت من هذه الأمة من الفرقة وطاعة أئمة الضلالة والدعاة إلي النار.

    علي بن إبراهيم، اپنے باپ سے ، وہ حماد بن عيسي سے ، وہ إبراهيم بن عثمان سے ،وہ سليم بن قيس الهلالي سے نقل کرتے ہیں کہ: امیر المومنین علیہ السلام نے خطبہ دیا ، خداوند عالم کی حمد و ثنا اور رسول اللہ پر درود و سلام کے بعد فرمایا : مجھ سے پہلے حاکموں نے کچھ ایسے کام کئے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کھلی اور عمدی مخالفت تھی ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد و پیمان کو توڑتے ہوئے ، اب اگر میں لوگوں کو تراویح ترک کرنے پر مجبور کرتا ، نوافل رمضان کو اسی طرح بجا لانے پر اصرار کرتا جس طرح عہد رسول میں بجا لایا جاتا تھا ، تو میرے ہی لشکر کے سپاہی مجھ سے دور ہو جاتے ، یہاں تک کہ میں اکیلا رہ جاتا، یا بہت کم میرے شیعہ بچتے جنہوں نے کتاب خدا اور سنت رسول کے ذریعہ میرے مقام کو اور میرے فرض امامت کو سمجھا ہے … خدا کی قسم میں نے انہیں حکم دیا کہ واجب نماز کے علاوہ ماہ مبارک رمضان میں جماعت نہ پڑھیں، میں نے انہیں سمجھایا کہ ان کا تراویح کے لئے جمع ہونا بدعت ہے تو میرے لشکر کا ایک ٹولہ جو میرے ہی ہمرکاب جہاد کرتا ہے چلانے لگا کہ ائے مسلمانوں سنت عمر کو تبدیل کیا جا رہا ہے ، ہمیں ماہ مبارک رمضان میں مستحب نمازوں سے روکا جا رہا ہے ، ایسے میں مجھے خوف ہو رہا تھا کہ کہیں عسکری بغاوت نہ ہو جائے ، جیسا کہ اس امت میں تفرقہ اور گمراہ کرنے والوں کی اطاعت، اور جہنم لے جانے والوں کی پیروی میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں … ۔

    الكافي، شيخ كليني، ج 8، ص 58، ح 21

    جیسا کہ اس صحیح السند روایت میں ملاحظہ کیا کہ حتی امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں بھی کوفہ میں شیعہ بہت کم تھے ، جیسا کہ خود امیر المومنین علیہ السلام ان کی قلت کو صراحت کے ساتھ بیان کر رہے ہیں ۔

    امام کے قاتل مشہور افراد:
    امام حسین علیہ السلام کو معمولی اور غیر معروف لوگوں نے نہیں بلکہ بہت ہی مشہور اور جانے پہچانے لوگوں نے قتل کیا ہے اور ان میں سےکوئی بھی نہ شیعہ تھے نہ ہی سابق میں وہ شیعہ تھے بلکہ محب اہل بیت علیہم السلام بھی نہیں تھے؛ یہی نہیں بلکہ بغض اہل بیت علیہم السلام میں وہ لوگ جانے پہچانے افراد تھے ؛ وہ شیعہ نہیں بلکہ دشمن شیعہ ہونے میں مشہور تھے؛ اور صرف یہی لوگ نہیں بلکہ ان کے باپ دادا بھی ایسے ہی تھے؛ ان میں سے: عمر بن سعد بن أبي وقاص، وشمر بن ذي الجوشن، وشَبَثِ بْنِ رِبْعِي‏، و سنان بن أنس وحَجَّارُ بْنُ أَبْجَر ، وحرملة بن كاهل، وغيره ہیں جو نہ شیعہ کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں اور نہ ہی محبت علی علیہ السلام کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ، بلکہ اہل بیت اور شیعیان حیدر کرار کی دشمنی میں مشہور تھے ۔

    كوفه حنفيوں کا مرکز:
    آج بھی اسلامی فقہی کتابوں میں جب یہ عبارت آتی ہے : « هذا راي كوفي» تو اصطلاح میں سے ابو حنیفہ کے پیروکاروں کے نظریہ سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ حنفیوں کا مرکز بن چکا تھا ، ظاہر سی بات ہے کوفہ راتوں رات تو حنفیوں کا مرکز تو نہیں بنا ، بلکہ ابتدا سے کوفہ کی مذہبی فضا اس کے لئے مستعد تھی ، اور یہ اس کے گذشتہ میں بھی شیعہ ہونے کے منافی ہے ۔

    قاتلین امام حسین شیعیان ابو سفیان
    امام حسين عليه السلام کے کلمات ، ارشادات ، فرمودات، خطبات ، مکاتبات، احتجاجات، غرض آپ کے تمام تر آثار کو کھنگھالنے اور ان میں لاکھ جستجو اور تلاش کرنے کے بعد میں کہیں نہیں ملا کہ امام نے کوفہ والوں کے لئے اپنے پدر بزرگوار امير المؤمنين عليه السلام کے شیعہ یا ان کے محب و موالی کی تعبیر استعمال کی ہو؛ جب کہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت ضرور اسے بیان کرتے تاکہ ان کے دل میں زیادہ اثر ہو ، ان سے اگر اس طرح کہتے کہ تم تو میرے اور میرے پدر بزرگوار کے شیعہ ہو ، تو اور بھی زیادہ ان کی غیرت جاگ جاتی ؛ لیکن امام کے کسی ارشادات میں ان کے لئے اس طرح کی تعبیر نہیں ملتی ؛ یہ خود ایک ٹھوس دلیل ہے اس بات پر کہ کوفہ والے اهل بيت عليهم السلام کے شیعہ نہیں تھے ۔

    ہاں روز عاشور کے امام حسین عليه السلام کے آخری کلمات سے پتہ چلتا ہے کہ امام عليه السلام کے قاتلین شیعہ تھے لیکن وہ شیعیان حیدر کرار نہیں بلکہ ابوسفیان کے شیعہ تھے جیسا کہ امام حسين عليه السلام نے خود روز عاشورا انہیں اس نام سے مخاطب کیا :

    ويحكميا شيعة آل أبي سفيان!إن لم يكن لكم دين، وكنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحراراً في دنياكم هذه، وارجعوا إلي أحسابكم إن كنتم عُرُباً كما تزعمون.

    وائے ہو تم پر ائے ابو سفیان کے نقش قدم پر چلنے والے سفیانی شیعوں ؛ اگر تمہارے پاس دین نہیں ؛ اور روز قیامت کا تمہیں خوف نہیں ؛ تو کم سے کم اپنی اس دنیا میں تو آزاد رہو ؛ اور اپنے حسب و نسب کا تو خیال رکھو اگر تم عرب ہو ، جیسا کہ تم لوگ گمان کرتے ہو۔

    مقتل الحسين، خوارزمي، ج 2، ص 38 ـ بحار الأنوار، ج 45، ص 51 ـ اللهوف في قتلي الطفوف، ص 45.

    قاتلوں کی زبان سے ان کی پہچان:
    روز عاشور اشقیاء نے امام حسين عليه السلام پر جس طرح ظلم ڈھایا وہ ان کے پرانے بغض و حسد و کینہ و دشمنی کی عکاسی کرتا ہے ، اور یہ حقیقت پوشیدہ بھی نہیں بلکہ اس کو انہوں نے صراحت کے ساتھ بیان بھی کیا ہے ، جس سے بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ لوگ جس قبیلہ اور قماش کے تھے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے پوچھنےپر اپنی دشمنی کا سبب بھی بتایا ہے جس سے ان کی گہری دشمنی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور ان کے مکتب فکر کا بھی :

    قالوا له عليه السلام : إنما نقاتلك بغضا لأبيك.

    انہوں نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : ہم تم سے تمہارے باپ کی دشمنی میں جنگ کر رہے ہیں ۔

    ينابيع المودة، قندوزي حنفي، ص 346.

    اس صراحت کے ساتھ کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ امير المؤمنين اور امام حسين عليهما السّلام کے شیعہ تھے ؟ اگر پھر بھی کوئی یہ کہے تو یقینا اس کی عقل پہ پتھر پڑ گیا ہوگا کیونکہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے بغض بھی اور ان کا شیعہ بھی ہو یہ دو متضاد چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔

    اسی طرح کچھ دیگر اوباش امام حسين عليه السلام سے خطاب کرتے ہوئے بکتے ہیں :

    يا حسين، يا كذّاب ابن الكذّاب.

    ائے حسین ، ائے جھوٹے کے فرزند جھوٹے

    الكامل، ابن أثير، ج 4، ص 67.

    اور دوسرا جہنمی ، امام حسين عليه السلام سردار جوان بہشت سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے :

    يا حسين أبشر بالنار.

    ائے حسین جہنم کی بشارت لو

    الكامل، ابن أثير، ج 4، ص66 ـ البداية والنهاية، ج 8، ص 183.

    ایک اوربد عمل شقی، امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے نماز پڑھنے کے مطالبہ پر کہتا ہے :

    إنها يعني الصلاة لا تُقْبَل منكم.

    تمہیں نماز سے کیا مطلب تمہاری نماز قبول نہیں

    البداية والنهاية، ابن كثير، ج 8، ص 185.

    اس طرح کے اور بھی بہت سے بیانات تاریخ میں ملتے ہیں جس سے اہل بیت علیہم السلام اور خاص کر امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے ان کے چھپے ہوئے دیرینہ بغض و حسد و کینہ و دشمنی کا پتہ دیتے ہیں ؛ اس طرح کے افراد شیعہ تو دور کبھی ان کے چاہنے والوں میں سے بھی نہ تھے ۔

    قاتلوں کے اعمال سے ان کی پہچان:
    امام حسین علیہ السلام کے قاتل نہ صرف شیعہ نہیں ، محب نہیں، بلکہ دشمن، وہ بھی بدترین دشمن تھے ؛ کیونکہ انہوں نے ان پر اور ان کے اہل و عیال اور اصحاب پر بلکہ شیر خوار بچہ پر بھی رحم نہیں کیا اور پانی بند کر دیا ؛ اور اسی حال میں انہیں اور ان کے اصحاب اور اہل بیت کو بہت قساوت و بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا ، ان کے سروں کو کاٹ دیا ؛ ان کے اجساد مطہرہ کو گھوڑوں سے پامال کردیا ؛ خیموں میں آگ لگا دی ،پردہ دار بی بیوں اور خاندان عصمت و طہارت کی مخدرات سے سروں سے چادریں چھین لی اور ہر چیز کو لوٹ لیا اور انہیں اسیر بنا لیا، اور ایسے ایسے ہولناک جرائم جو کسی دشمن ترین دشمن سے توقع نہیں کیا جا سکتا ان سب کے وہ مرتکب ہوئے ، ایسے میں وہ شیعہ کیسے ہو سکتے ہیں ؟

    ابن اثیر کتاب الکامل میں لکھتا ہے :

    ثم نادي عمر بن سعد في أصحابه مَن ينتدب إلي الحسين فيُوطئه فرسه، فانتدب عشرة، منهم إسحاق بن حيوة الحضرمي، وهو الذي سلب قميص الحسين، فبرص بعدُ، فأتوا فداسوا الحسين بخيولهم حتي رضّوا ظهره وصدره.

    پھر عمر سعد نے اپنے سپاہیوں کو پکارا حسین کو گھوڑے سے پامال کرنے کون آگے آئے گا، تو ان میں سے دس لوگ بڑھے جن میں اسحاق بن حيوة حضرمي بھی تھا وہی جس نے حسین کا پیرہن چھینا تھاجو کہ بعد میں برص کے مرض میں مبتلا ہو گیا تھا؛ تو وہ سب آئے حسین گھوڑوں سے پامال کردیا یہاں تک کہ ان کی پیٹ اوران کا سینہ کو چور چور کر دیا ۔

    الكامل، ابن أثير، ج 4، ص80.

    یہی شخص دوسری جگہ لکھتا ہے :

    وسُلِب الحسين ما كان عليه، فأخذ سراويله بحر بن كعب، وأخذ قيس بن الأشعث قطيفته، وهي من خز، فكان يُسمَّي بعدُ (قيس قطيفة)، وأخذ نعليه الأسود الأودي، وأخذ سيفه رجل من دارم، ومال الناس علي الورس والحلل فانتهبوها، ونهبوا ثقله وما علي النساء، حتي إن كانت المرأة لتنزع الثوب من ظهرها فيؤخذ منها.

    حسین کے پاس جو کچھ تھا وہ سب لوٹ لیا گیا …بحر بن کعب اور قیس ابن اشعث نے مل کے آپ کا لباس لوٹا…جس کے بعد قیس کو قیس قطیفہ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا، آپ کے نعلین کو اسود اودی نے لوٹا، آپ کی تلوار کو قبیلہ دارم کے کسی شخص نے اٹھا لیا ، اس کے بعد لوگ ان کے اموال لباس اور زیورات پر لپکے اور سب کو لوٹ لیا ؛ تمام اثاثہ اور جو کچھ خواتین کے پاس تھا سب کچھ لوٹ لیا …

    الكامل، ابن أثير، ج 4، ص 79.

    ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں ابو مخنف سے نقل کر تے ہوئے کہتا ہے:

    وأخذ سنان وغيره سلبه، وتقاسم الناس ما كان من أمواله وحواصله، وما في خبائه حتي ما علي النساء من الثياب الطاهرة.

    سنان نے ان کا جامہ چھینا، لوگ ان کے اموال اور زیورات کو لوٹ گھسوٹ رہے تھے جو کچھ ان کے تھیلوں تھا یہاں تک کہ خواتین کے تمام اچھے اور قیمتی ملبوسات سب کو لوٹ لیا۔

    وجاء عمر بن سعد فقال: ألا لا يدخلن علي هذه النسوة أحد، ولا يقتل هذا الغلام أحد، ومن أخذ من متاعهم شيئاً فليردّه عليهم. قال: فوالله ما ردَّ أحد شيئاً.

    پھر عمر سعد آیا اور کہا : کوئی بھی ان عورتوں کو نہ ستائے ، کوئی بھی اس جوان کو قتل نہ کرے ، اور جو کچھ چھینا گیا ہے وہ سب انہیں لوٹا دیا جائے۔ پھر کہتا ہے : خدا کی قسم کسی نے کچھ نہیں لوٹایا۔

    البداية والنهاية، ابن كثير، ج 8، ص190.

    یقینا اس طرح کے شدید ترین ظلم کسی عام دشمن سے بھی سرزد نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ برسوں کا کینہ اور شدید عداوت و دشمنی اس کے دل میں کوٹ کوٹ کے بھری ہو، تو جب یہ کام کسی عام دشمن سے بھی سرزد نہیں ہو سکتا تو کسی محب دوستدار پیروکار شیعہ سے کیسے سرزد ہو سکتا ہے ، اصلا یہ بات معقول ہی نہیں ۔کیا ایسے جرائم کے باوجود کوئی مانے گا کہ وہ لوگ شیعہ تھے؟ ہرگز نہیں ۔

    قاتلوں کے نام سے ہی ان کی هويت فاش :
    شایدان جاہل اور بے عقل وہابیوں کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کے قاتل بے نام و نشان ہوتے تو شاید کسی بھی طرح کی کیسی بھی نسبت انہیں دینا آسان ہوتا، لیکن ان سب کا نام ،قبیلہ ،ان کے آباء واجداد، ان کی گذشتہ کرتوتیں ، ان کے سیاسی اور مذہبی رجحانات سب کچھ واضح اور معین ہے، لہذا اب اتنا آسان نہیں ہے کسی کو اس کے گذشتہ رجحانات، اس کے قوم و قبیلہ اور آباء و اجداد سے کاٹ کر یوں ہی شیعہ بنادیں ، کربلا میں جو لوگ بھی امام کے مدمقابل میں تھے اوپر سے لیکر نیچے تک سب کے نام و نسب واضح ہیں : چاہے وہ حاکم و آمرطبقہ سے ہو ،جیسے : يزيد بن معاوية ـ عبيد الله بن زياد ـ عمر بن سعد ـ شمر بن ذي الجوشن ـ قيس بن أشعث بن قيس ـ عمرو بن حجاج زبيدي ـ عبد الله بن زهير أزدي ـ عروة بن قيس أحمسي ـ شبث بن ربعي يربوعي ـ عبد الرحمن بن أبي سبرة جعفي ـ حصين بن نمير ـ حجار بن أبجر. و غيره…

    یا پھر محکوم و رعایا اور عام سپاہی کے طبقہ سے ہو، جیسے یہ لوگ : سنان بن أنس نخعي ـ حرمله كاهلي ـ منقذ بن مره عبدي ـ أبو الحتوف جعفي ـ مالك بن نسر كندي ـ عبد الرحمن جعفي ـ قشعم بن نذير جعفي ـ بحر بن كعب بن تيم الله ـ زرعة بن شريك تميمي ـ صالح بن وهب مري ـ خولي بن يزيد أصبحي ـ حصين بن تميم و غيره…

    اب جو لوگ کہتے ہیں کہ امام کے قاتل شیعہ ہیں ، کسی ایک شیعہ کا نام تو بتائیں جو امام کے قتل میں ملوث ہو ۔

    یزید کی نظر میں قاتلان امام:
    خود يزيد بن معاويه نے خود کو قتل حسین علیہ السلام کے الزام سے بچانے کے لئے یہ نہیں کہا کہ حسین علیہ السلام کو ان کے شیعوں نے ہی قتل کیا ، اور اگر اس جھوٹ کی اس زمانہ میں ذرہ برابر گنجایش ہوتی اور اگر یہ بات کسی حد تک بھی قابل قبول ہو سکتی تھی تو ایسی بات کہنے سے یزید جیسا عیار ایک لمحہ بھی نہ چوکتا ، وہ اس وقت ایسا جھوٹ بول سکتا تھا جیسے کم سے کم کچھ سادہ لوح افراد قبول کر سکیں لہذا اس نے کوفہ کے حاکم عبید اللہ ابن زیاد کو مورد الزام ٹھہرایا ، تا کہ اپنے آپ کو اس الزام سے بری کرسکے اور اپنے دامن کو خون حسین علیہ السلام سے بچا سکتے ۔

    ابن کثیر نے کتاب البداية والنهاية، اورذهبي نے کتاب سير أعلام النبلاء میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے:

    لما قتل عبيدُ الله الحسينَ وأهله بعث برؤوسهم إلي يزيد، فسُرَّ بقتلهم أولاً، ثم لم يلبث حتي ندم علي قتلهم، فكان يقول: وما عليَّ لو احتملتُ الأذي، وأنزلتُ الحسين معي، وحكَّمته فيما يريد، وإن كان عليَّ في ذلك وهن، حفظاً لرسول الله صلي الله عليه وسلم ورعاية لحقه،لعن الله ابن مرجانةيعنيعبيد الله فإنه أحرجه واضطره، وقد كان سأل أن يخلي سبيله أن يرجع من حيث أقبل، أو يأتيني فيضع يده في يدي، أو يلحق بثغر من الثغور، فأبي ذلك عليه وقتله، فأبغضني بقتله المسلمون، وزرع لي في قلوبهم العداوة.

    جب عبید اللہ نے حسین اور ان کے اصحاب اور اہل کو قتل کر دیا اور اس نے سب کے سروں کو یزید کے لئے بھیج دیا ، تو پہلے تو وہ ان کے قتل پر بہت خوش ہوا ، پھر کچھ ہی دن گذرنے کے بعد ان کے قتل پر ندامت کا اظہار کرنے لگا؛ اور کہنے لگا: اللہ ابن مرجانہ یعنی عبید اللہ کو غارت کرے اسی نے حسین کا راستہ روکا اور انہیں مجبور کیا ، حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ ان کا راستہ نہ روکے وہ جہاں سے آئے ہیں وہیں جانے دے، یا انہیں میرے پاس آنے دے تو وہ براہ راست مجھ سے ہاتھ ملا لیتے ، یا ان کو کسی دور دراز کے علاقہ میں جانے دے ، لیکن عبید اللہ نے ہر تجویز کو ٹھکرا دیا اور انہیں قتل کر دیا ، اس طرح اس نے حسین علیہ السلام کے قتل کی وجہ سے مسلمانوں کو میرے خلاف ناراض کیا اور ان کے دلوں میں میرے خلاف دشمنی کا بیج بو دیا ۔

    سير أع

جواب دیں۔

براؤز کریں۔