کیا حدیث کسا معتبر ہے ؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    ۲۴ ذی الحجۃ الحرام عید مباہلہ کے ساتھ ساتھ آیہ ولایت ، مودت ، ھل اتی ، حدیث کسا اور آیہ تطہیر کے نزول کی بھی مناسبت ہے ایسے مبارک موقع پر یہ سوال بہت ہی بروقت اور مناسبت سے منطبق ہے ۔

    حدیث کسا کی صحت میں کسی قسم کے شک و تردید کی کوئی گنجایش نہیں ، کیونکہ شیعہ اور اہل سنت علما کے درمیان یہ حدیث متواترات میں سے ہے۔

    شیعہ مصادر کے لئے رک:

    علامه حلّی، حسن بن یوسف، نهج الحقّ و کشف الصدق، ص 228 و 229، دارالکتاب اللبنانی، بیروت، چاپ اول، 1982م

    بحرانی اصفهانی، عبدالله بن نورالله، عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال (مستدرک سیدة النساء إلی الإمام الجواد)، محقق و مصحح: موحد ابطحی اصفهانی، محمدباقر، ج 11، قسم 2، فاطمه (س)، ص 930 – 934، مؤسسة الإمام المهدى (عج)، قم، چاپ اول، 1413ق

    مظفر نجفى، محمد حسن‏، دلائل الصدق لنهج الحق، ج 6، ص 251، مؤسسة آل البیت (ع)،‏ قم، چاپ اول، 1422ق

    ابن طاووس، على بن موسى،‏ الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، محقق و مصحح: عاشور، على،‏ ج 1، ص 113، نشر خیام، چاپ اول، 1400ق

    مجلسى، محمد باقر، بحارالانوار، ج 25، ص 237 – 240، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، چاپ دوم، 1403ق

    اہل سنت مصادر کے لئے رک :

    احمد بن حنبل، مسند، باب بدایة

    مسند عبدالله بن العباس و باب حدیث واثلة بن الاسقع

    سنن الترمذی، باب «من سورة الاحزاب»؛

    آلوسى، سید محمود، روح المعانى فى تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: عبدالبارى عطیة، على، ج 11، ص 195، دارالکتب العلمیة، بیروت، چاپ اول، 1415ق

    حسکانى، حاکم، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، ج2، ص17، نشر مؤسسه طبع و نشر، تهران، 1411 ق.

    آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کتاب مفاتیح نوین میں حدیث کسا کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مضمون کہ پنجتن آل عبا ایک چادر کے نیچے اکٹھا ہوئے اور ایسے میں پنجتن کی شان میں آیہ تطہیر إِنَّما یُریدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهیراً کا نزول ہوا ، شیعہ اور اہل سنت کے بزرگ علما کے نزدیک بہت مشہور و معروف ہے ۔

    مفاتیح نوین ، آیه الله مکارم شیرازی ، چاپ پنجم ، ص 1165 .

    چند اعتراضات کی بنا پر بعض لوگوں نے اس حدیث کی صحت پر شک کا اظہار کیا لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اعتراضات سطحی اور غیر علمی ہیں ۔

    مثال کے طور پر بعض نے کہا ہے کہ عظیم الشان محدث شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں حدیث کسا کو نقل نہیں کیا تھا، البتہ ان کے بعد دوسرے پبلیشرز نے حدیث کسا کو مفاتیح میں اضافہ کر دیا لہذا حدیث کسا معتبر نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ مفاتیح میں کسی حدیث کا ذکر نہ ہونا اس کے نامعتبر ہونے کی دلیل نہیں، شیخ عباس قمی نے کیوں مفاتیح میں ذکر نہیں کیا، اس کی وجہ ہمیں نہیں معلوم، شاید اس لئے کہ ان کی نظر میں مفاتیح دعاوں کی کتاب تھی اور حدیث کسا دعا نہیں بلکہ حدیث ہے، اگرچہ آیت اللہ بہجت اور دیگر جید علما حدیث کسا کو دنیوی اور اخروی حاجات کی برآوردی کے لئے بہت تاکید کیا کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ اگر گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے تو اہل خانہ کو اکٹھا کر کے حدیث کسا پڑھا کرو ۔ ۔ ۔ لیکن بہرحال شیخ عباس قمی نے مفاتیح میں نقل نہیں کیا پھر بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شیخ عباس قمی کے نزدیک حدیث کسا نا معتبر تھی، خاص کر کہ خود شیخ عباس قمی اپنی معرکۃ الارا کتاب منتهى الآمال میں تصریح فرماتے ہیں کہ حديث اجتماع خمسه طيبه عليهم السلام تحت كِسا متواترات میں سے ہے ۔

    صاحب کتاب فاطمةالزهراء بهجة قلب المصطفي حدیث کسا کی مکمل سلسلہ سند کو نقل کرتے ہوئے شیخ کلینی کے بعد بھی سید ہاشم بحرانی تک اور شیخ کلینی سے پہلے بھی صحابی رسول جناب جابر بن عبداللَّه انصاري،اور حضرت فاطمه زهرا عليهاالسلام تک یوں بیان فرماتے ہیں :

    سيد هاشم بحراني عن سيد ماجد بحراني، عن حسن بن زين الدين شهيد ثاني، عن مقدس اردبيلي، عن علي بن عبدالعالي کرکي، عن علي بن هلال جزايري، عن احمد بن فهد حلي، عن علي بن خازن حائري، عن علي بن محمد مکي شهيد اول، عن پدرش شهيد اول، عن فخر المحققين فرزند علامه ي حلي، عن پدرش علامه ي حلي، عن محقق حلّي، عن ابن نما حلّي، عن ابن ادريس حلّي، عن ابن حمزه ي طوسي صاحب کتاب ثاقب المناقب، عن ابن شهرآشوب، عن طبرسي صاحب کتاب احتجاج، عن حسن بن محمد فرزند شيخ طوسي، عن پدرش شيخ طوسي، عن شيخ مفيد، عن ابن قولويه قمي، عن شيخ کليني، عن علي بن ابراهيم، عن پدرش ابراهيم بن هاشم، عن احمد بن محمد بن ابي نصر بزنطي، عن قاسم بن يحيي جلاء کوفي، عن ابوبصير، عن ابان بن تغلب، عن جابر بن يزيد جعفي، از جابر بن عبداللَّه انصاري،عن حضرت فاطمه ي زهرا عليهماالسلام.

    فاطمةالزهراء بهجة قلب المصطفي: 293-292 به نقل از ملحقات احقاق الحق، ج 2، ص 554 و آن به نقل از عوامل العلوم، علامه شيخ عبداللَّه بحراني ج 11، ص 642-638۔

    اس سند پر کوئی اشکال نہیں ہو سکتا حالانکہ پھر بھی اشکال کرنے والوں نے یوں اعتراض کیا ہے کہ قاسم بن يحيي جلاء کوفي رجالی کتب میں مجہول ہے ، یا یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ حدیث خبر واحد ہے یعنی جابر بن عبد انصاری کے علاوہ کسی اور صحابی نے نقل نہیں کیا ہے اس لئے یہ خبر واحد ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ قاسم بن يحيي جلاء کوفي کے مجهول ہونے سے بھی حدیث میں ضعف پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس سے پہلے اور خاص کر اس کے بعد کے سلسلہ اتنے قوی ہیں کہ اس سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور فنی طور سے خبر واحد ہونا بھی خبر کے ضعیف، غیر صحیح یا مجعول ہونے کی دلیل نہیں، خبر واحد کے سلسلہ میں قرآن کی آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ حجرات/۶ کی رو سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ واحد کون ہے، اس حدیث میں وہ واحد رسول کے سچے عظیم الشان صحابی جناب جابر بن عبداللَّه انصاري ہیں جن کے بارے میں جھوٹ گڑھنے کا احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا. علامه سيد مرتضي عسکري اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ خبر واحد ہے کہ سند اور متن کے اعتبار سے دوسری کوئی حدیث اس کی برابری نہیں کرسکتی ۔

    حديث الکساء في کتب مدرسة الخلفاء و مدرسة اهل البيت عليهم السلام بخش دوم، ص 15.

جواب دیں۔

براؤز کریں۔