کیا ستارے اور افلاک انسان کی سعادت یا بد بختی میں اثر انداز ہیں ؟

سوال

کیا ستارے اور افلاک انسان کی سعادت یا بد بختی کو معین کرنے میں اور نتیجہ کے طور پر ان کے بہشت یا جہنم میں داخل ہونے میں کوئی رول رکھتے ہیں؟

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم

    پرانے زمانہ سے یہ رسم و رواج اور پرانی ریت چلی آ رہی ہے کہ ستاروں کی گردش انسان کے کاموں پر، انسان کی سعادت اور بد بختی پر اثرانداز ہوتی ہے، البتہ یہ بات سرے سے غلط بھی نہیں ، لیکن جس قدر اس میں حقیقت پائی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ خرافات کا غلبہ ہے ۔

    بہت سی آیات وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے بہشت یا جہنم میں داخل ہونے کی سب سے اہم بنیادی کردار اداکرنے والے خود انسان کے اعمال و کردار ہیں – خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے : تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ اور یہ وہ جنت ہے جس کا تمہیں ان اعمال کی بنا پر وارث بنایا گیا ہے جو تم انجام دیا کرتے تھے۔

    اعراف، 43؛ زخرف، 72.

    خدا وند متعال اہل جہنم سے نقل کرکے کہتا ہے کہ وہ خداوند عالم سے اپنی تقدیر کا شکوہ کرتے ہیں کہ قالُوا رَبَّنا غَلَبَتْ عَلَيْنا شِقْوَتُنا وَ كُنَّا قَوْماً ضالِّين ۔{ ہم نے گناہ نہیں کیا ہے بلکہ} بدبختی نے ہم پر غلبہ کیا ہے اور ہم ایک گمراہ گروہ کے افراد تھے { اسی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئے ہیں-}۔

    مؤمنون، 106

    قرآنی آیات کے علاوہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کی بہت سی حدیثوں میں اس سلسلہ میں ہدایات موجود ہیں ، منجملہ :

    ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور علم نجوم کے سلسلہ میں اپنی آگاہی اور مہارت کو بیان کرتے ہوئے کہنے لگا : میں اس قدرعلم نجوم میں ماہر ہوں کہ جب بھی کوئی کام انجام دینا چاہتا ہوں تو پہلے علم نجوم کے ذریعہ پرکھ لیتا ہوں طالع اگر نحس ہو تو نہیں کرتا ، اور اگر طالع نیک ہو تو انجام دیتا ہوں ۔ امام علیہ السلام نے دریافت کیا کہ کیا تم نجوم پر عقیدہ رکھ کر اس پر عمل کرتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : اپنی تمام نجومی کتابوں کو مٹا دو اور خبردار آج سے اس علم پر عمل نہ کرنا ۔

    الوافی، محمد محسن فیض کاشانى، ج 12، ص355، کتابخانه امیر المؤمنین، اصفهان، 1406‍ ق

    اسلامی تعلیمات نے اس سلسلہ میں جہاں لوگوں کو خرافات سے بچایا ہے ، وہیں ستاروں اور آسمانی سیاروں کے بعض آثار کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ، جیسے یہ حدیث :

    امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر کوئی قمر در عقرب کے وقت سفر یا شادی کرے تو خیر نہیں پائے گا ۔

    الکافی، محمد بن یعقوب کلینى، ج8، ص 275، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1407‍ ق

    یہ روایت درست ہے اور علما و فقہا نے اس روایت کے تحت فتوی بھی دیا ہے ۔ مگر اس بات کو دقیق سمجھنے کے لئے چند نکات پر توجہ ضروری ہے :

    روایت علت تامہ کو بیان کرنے کے مقام میں نہیں ہے ، اور نہ ہی قطعیت کو بیان کر رہی ہے بلکہ یہ روایت اقتضائے امکان و احتمال کو بیان کرنے کے مقام میں ہے ۔

    روایت میں صرف دو چیز کا بیان ہے شادی اور سفر لہذا دوسرے موارد جیسے معاملات اس حکم میں شامل نہیں ہیں ۔

    اسی لئے فقہا نے جو فتوا دیا ہے اس میں شادی اور سفر کو قمر در عقرب کے ایام میں حرام قرار نہیں دیا ہے بلکہ مکروہ قرار دیا ہے ۔

    اور یہ کراہت صرف شادی اور سفر کے سلسلہ میں ہے کسی اور چیز کے لئے نہیں ۔

    اور شادی اور سفر کے سلسلہ میں یہ کراہت بھی اس وقت تک ہے جب تک کسی اور اہم حکم سے نہ ٹکرائے ۔ لیکن اگر کوئی اہم حکم اس سے ٹکرا گیا جیسے واجب حج ، یا اطاعت والدین (مثال کے طور پر والدین قمر در عقرب میں سفر پر جانے کا حکم دیں) تو اس صورت میں کراہت پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔

    تحریر الوسیلة، امام خمینی، ج‌2، ص 238، مؤسسه مطبوعات دار العلم‌،، قم

    کشف الغطاء عن مبهمات الشریعة الغراء، کاشف الغطاء، ج4، ص 485، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامى ، قم ، 1422 ق

    جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے لئے اپنے سفر کو نہیں روکا ۔ روایت ہے کہ جب آپ جنگ کے لئے روانہ ہو رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور حضرت سے کہنے لگا کہ یہ ایام نحس ہیں ان ایام میں سفر نہ کیجئیے ۔ ۔ ۔

    عجیب بات ہے جن کی دہلیز پہ ستارہ ٹوٹ کے سجدہ کرے یہ شخص انہیں سے کہہ رہا ہے ستارہ گردش میں ہے ایام نحس ہیں سفر پہ نہ جائیے شکست کھا جائیے گا ۔ اور عجیب تر یہ کہ اگر نحس ایام کی وجہ سے امام کے لشکر کو شکست ہو جائے تو اس کا مطلب خوارج کی جیت ہوگی، تو کیا ان کے لئے یہ نحس ایام نیک ہو جائینگے ۔

    اسی لئے حضرت نے فرمایا : یہ تمہاری خام خیالی اور بیہودہ ڈر ہے ، جو تمہاری باتوں میں آ جائے اس نے قرآن کو جھٹلایا ہے، نصرت الہی کا انکار کر رہا ہے اور اعلی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اللہ کی مدد سے بے نیاز سمجھ رہا ہے، گویا چاہتے یہ ہو کہ اللہ کے بدلے لوگ تمہاری تعریف کریں کیونکہ تم ان کے نفع اور نقصان سے آگاہ ہو، لوگ تمہاری پیروی کریں تا کہ نقصان سے محفوظ رہیں ۔ ائے لوگو جھوٹی پیشگوئیوں کے لئے علم نجوم سے بچو ، البتہ سمندروں اور صحراوں میں راستہ کی سمت معین کرنے کے لئے ضروری حد تک علم نجوم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ، لیکن یاد رہے کہ علم نجوم تمہیں غیب گوئی ، اور غیب گوئی تمہیں جادوگری ، اور جادوگری تمہیں کفر، اور کفر تمہیں جہنم تک لے جا سکتا ہے ۔ پس اللہ کا نام لو اور اس پر توکل کرتے ہوئے چل دو ۔

    نهج البلاغه، خطبه 79

جواب دیں۔

براؤز کریں۔