کیا شب عاشور خیموں میں پانی تھا ؟

سوال

کیا آقای سید علی خامنہ ای کا کوئی بیان ایسا ہے جس میں انہوں نے یہ کہا ہو کہ عاشور کے دن خیمہ میں پانی تھا اور امام حسین علیہ السلام غسل کر کے جنگ میں گئے ہیں عاشور کے دن۔

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    پہلی بات یہ کہ ایسی کوئی تقریر ہماری نظروں سے نہیں گذری ۔

    دوسری بات یہ کہ رہبر معظم عام طور سے خود اپنی زبانی مصائب نہیں پڑھتے ، بلکہ ترجیح دیتے ہیں کسی مقتل جیسے لہوف یا مقرم جیسے مقاتل کو کھول کر خود مقتل کی عبارتوں کو پڑھیں، اور بعض مقاتل میں ایسی روایت ملتی ہے کہ شب عاشور امام نے آداب غسل و طہارت بجا لائے، اس قسم کی روایات کے سلسلہ میں علما اور محققین کا موقف یہ ہوتا ہے کہ یا تو سرے سے روایت کو باطل قرار دیں کیوں کہ کربلا میں پیاس اور فوج اشقیا کی طرف سے پانی کی بندش تاریخ کے مسلمات میں سے ہے تو چونکہ یہ روایت اس تاریخی حقیقت کے معارض ہے لہذا غسل و طہارت والی روایت باطل ہے ، تو کچھ محققین کسی روایت کو اتنی آسانی سے باطل قرار نہیں دیتے بلکہ الجمع مہما امکن اولی من الترک کے قانون کے مطابق جہاں تک جمع عرفی ممکن ہو تو توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اس روایت کی بھی توجیہ کی گئی ہے کیونکہ کربلا میں پیاس تاریخ کے مسلمات میں سے لہذا بعض لوگ اس روایت کی یوں توجیہ کرتے ہیں کہ شاید خیمہ میں ایسا پانی موجود ہو جو پینے کے لایق نہ ہو لیکن وضو وغیرہ کیا جا سکتا ہو ، تو بعض محققین یوں بھی توجیہ کرتے ہیں کہ آداب غسل و طہارت ایک عام لفظ ہے جس میں تیمم بھی شامل ہے ۔ لہذا اگر غور سے دیکھا جائے تو جو آداب غسل و طہارت کی روایت کو مان بھی رہے ہیں وہ بھی در حقیقت منکر پیاس نہیں ہیں ، اگرچہ عوامی نطقہ نظر سے بات کو گہرائی سے نہ سمجھنے کی وجہ سے انہیں منکر پیاس تسلیم کرلیا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔

    تو بہرحال ایک محقق کو محقق کے عنوان سے تمام روایتوں کو پڑھنا پڑتا ہے ، اس کے بعد انہیں پرکھنا پڑتا ہے یا جمع عرفی کرکے تعارضات کو حل کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بہت سے مقاتل میں بہت سی ضد و نقیض روایتیں موجود ہیں ، کچھ روایتیں غیروں نے نقل کی ہیں، بلکہ کربلا کے میدان میں قلم بدست مورخ تو زیادہ تر حکومت کے زر خرید تھے، لہذا مقاتل میں موجود ضد و نقیض روایتوں میں سے صحیح کو غلط میں سے چھانٹنا آسان کام نہیں ، لہذا محقق مقام تحقیق میں اگر کوئی بات کہے تو اس کو اس کا نظریہ یا حرف آخر نہیں مانا جاتا ، یہ اہل علم ہی تشخیص دے پاتے ہیں کہ محقق کہاں نقل قول کر رہا ہے اور کہاں اپنا آخری نظریہ بیان کر رہا ہے کیونکہ عظیم اور ماہر محققین کی روش یہ بھی ہوتی ہے کہ دوسروں کا نظریہ بیان کرنے کے بعد فورا اسے رد نہیں کرتے بلکہ پہلے اسے تبیین کرتے ہیں اس نظریہ کے تائید میں جملہ دلائل کو بھی بیان کرتے ہیں پھر تجزیہ و تحلیل کر کے جملہ دلائل کو رد کرتے ہوئے آخر میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں ، ایسے میں عوام تو دور ایک اناڑی طالبعلم کو دھوکہ بھی ہو سکتا ہے کہ واقعا محقق کا نظریہ کیا ہے ۔ ۔ ۔

    بہر حال اب یہ کہ رہبر معظم نے مقام تحقیق میں بھی آداب غسل و طہارت کی روایت پڑھی ہے یا نہیں، ہم نے بہت تلاش کیا لیکن ہمیں کہیں نہیں ملا کہ انہوں نے اس روایت کو پڑھا ہو جب کہ متعدد مقامات میں کربلا میں شدت تشنگی اور پانی کے فقدان کو کربلا کے عظیم مصائب کے طور پر پڑھا ہے ۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔