کیا شیخ صدوق اخباری تھے ؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ

    شیخ صدوق اخباری نہیں تھے ، ہاں محدث ضرور تھے، اور اہل فن جانتے ہیں کہ اخباری میں اور محدث میں بہت فرق ہے، لیکن عام لوگ چونکہ اس فرق کو نہیں سمجھ پاتے لہذا معمولی شباہت کو عینیت کا رنگ دیکر مغالطہ سے کام لیا جا رہا ہے، اور یہی ستم ظریفی خود اخباریت کے ساتھ بھی ہو رہی ہے ، آج جو لوگ اپنے کو اخباری کہہ رہے ہیں وہ در اصل اخباری نہیں ہیں، اور نہ ہی اخباریت کے معنی و مفہوم سے آگاہ ہیں ۔ آج کی اخباریت میں اور وہ اخباریت میں جو حوزات علمیہ میں ایک خاص مکتب فکر تھا، زمین آسمان کا فرق ہے ۔

    اخباریت حوزات علمیہ میں علما کے درمیان ایک خاص مکتب فکر ہے جسے ملا محمد امین استرآبادی م ۱۰۳۶ق نے الفوائد المدنیة نامی کتاب تحریر کر کے بنیاد رکھی، اس کتاب میں ملا امین استرآبادی نے اجتہاد کی مخالفت کی ؛ اور دلیل عقل اور اجماع کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ ظواہر قرآن کی حجیت کو بھی رد کر دیا ، اور مصادر شریعت میں صرف سنت ائمہ اطہار کو ہی تسلیم کیا ہے حتی سنت نبی کو بھی نہیں مانا ۔ اس لحاظ سے اخباریت حوزہ علمیہ میں ایک نئی فکر تھی ، اس سے پہلے کسی نے ایسی بات نہیں کی تھی ، البتہ ہمارے علما میں ایسے بہت سے تھے جو لفظ اجتہاد کی مخالفت کرتے تھے کیونکہ اجتہاد سنیوں کے یہاں رائج تھا جو کہ قیاس پر مبنی ہوا کرتا تھا ، تو چونکہ اجتہاد سے مراد قیاس لیا جاتا تھا اس لئے اجتہاد کی مذمت کی جاتی تھی شیخ صدوق اسی دور کے ہیں جب اجتہاد قیاس کے معنی میں تھا لہذا اجتہاد کی مخالفت ان کے یہاں پائی جاتی ہے، لیکن زمانہ آگے بڑھا اجتہاد کو دوسرے زاویوں سے دیکھا گیا، اجتہاد کو قیاس کی آلودگی سے پاک کیا گیا یہاں تک کہ علامہ حلی کے زمانہ تک اجتہاد کا لفظ، قیاس سے بالکل الگ ہوگیا، اب اجتہاد میں قیاس والی قباحت نہ رہی ، تب واضح ہو گیا کہ اصول کی بنیاد پر اجتہاد اور ہے اور قیاس اور ہے ، تب پتہ چلا کہ بہت سے گذشتہ علما جنہوں نے اجتہاد کی مخالفت کی ہے وہ در اصل اجتہاد کی نہیں بلکہ قیاس کی مخالفت کی ہے، وہ لوگ نہ صرف اصل اجتہاد کے مخالف نہیں تھے بلکہ خود عملا اصول پر مبنی اجتہاد ہی کیا کرتے تھے ؛ اگر چہ اجتہاد کا نام بدنام ہونے کی وجہ سے اجتہاد کی مخالفت بھی کیا کرتے تھے، تو یہ مسئلہ علامہ حلی کے زمانہ میں حل ہو چکا تھا، اور حوزات علمیہ میں اصول پر مبنی اجتہاد اپنے کمال کی منزلوں کو طئے کر رہا تھا کہ اچانک ملا امین استرآبادی نے ایک بار پھر اجتہاد کی مخالفت کی اور اپنی روش کو شیخ صدوق سے منسوب کیا کہ جس طرح ہمارے پرانے علما اجتہاد نہیں کیا کرتے تھے بلکہ اجتہاد کی مخالفت کیا کرتے تھے، میں بھی ان کی روش پر چلتے ہوئے اجتہاد کی مخالفت کر رہا ہوں جب کہ ملا امین جس اجتہاد کی مخالفت کر رہے تھے اور گذشتہ علما جس اجتہاد کی مخالفت کر رہے تھے دونوں میں بڑا فرق تھا ، گذشتہ علما قیاس پر مبنی اجتہاد کی مخالفت کر رہے تھے ، نہ کہ اصول پر مبنی اجتہاد کی ، کیونکہ خود بھی اصول کی بنیاد پر استنباط کیا کرتے تھے یعنی عملا اجتہاد کرتے تھے، اگر چہ اجتہاد کے نام سے پرہیز کرتے تھے ؛ اس بناپر وہ بحث محض لفظی بحث تھی جو حل ہو چکی تھی ۔ مگر ملا امین استرآبادی اصول پر مبنی اجتہاد کی مخالفت کر رہے تھے، اس لحاظ سے دونوں کی روش میں بہت فرق ہے ۔ ملا امین کا اپنا ایک خاص طریقہ تھا، جو کہ اس سے قطع نظر کہ وہ صحیح تھا یا غلط لیکن جو بھی ہو بہرحال علمی تھا، اور یہ مکتب فکر علما کے درمیان میں تھا، مکتب اخباریت کی وجہ سے برے آثار نہیں بلکہ بہت سے اچھے آثار نمایاں ہوئے ، احادیث کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ کی گئی کتب اربعہ سے کہیں زیادہ عظیم تر کام تب ہوا جب حوزات علمیہ میں اخباریت کا غلبہ تھا بحار الانوار ، وسائل الشیعہ ، مستدرک جیسی عظیم کتابیں اسی دور کی مرہون منت ہیں ، حتی اخباریت کی بنا پر مکتب اجتہاد میں بھی بہت سے نکھار پیدا ہوئے جس کی بنا پر مکتب اجتہاد اپنے اوج کمال پر پہنچ گیا ۔ ۔ ۔

    خلاصہ یہ کہ حوزات علمیہ کی اخباریت اور ہے، علمی ہے، علما سے مخصوص ہے جبکہ آج جو اخباریت رائج ہے وہ محض جہالت ہے، آج جب گلی کوچوں کے انپڑھ انگوٹھا چھاپ لوگ اخباری ہونے کا ، مولا کی تقلید کرنے کا یا امام معصوم کی پیروی کرنے دعوا کرتے ہیں تو ہنسی آ جاتی ہے کہ جنہیں مولا کا کلام نہج البلاغہ کی ایک سطر بھی صحیح سے پڑھنی نہیں آتا وہ چھوٹا منھ کیسی کیسی بڑی بڑی باتیں کر رہا ہے، جبکہ اس کو پتہ بھی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ ۔ ۔

    اللہ ہم سب کی ہدایت کرے ، وہ نوجوان بھی کسی کے بہکاوے میں ہی آ گیا ہوگا ، جب عقل ٹھکانے آ جائے گی تو خود ہی سب سمجھ میں آ جائے گا ؛ اس سے زیادہ الجھنے کی ضرورت نہیں، اس کو ذرا وقت کی ضرورت ہے ، بلوغ فکری کے لئے بہرحال وقت بھی درکار ہے ۔

جواب دیں۔

براؤز کریں۔