کیا ولی فقیہ دیگر فقہا اور مراجع کرام پر بھی ولایت رکھتا ہے ؟
سوال
کیا رہبر کا حکم آیت اللہ سیستانی صاحب پر بھی نافذ ہے یا نہیں؟ رہبر صرف ایران کے رہبر ہیں، خاص کر یا کہ ولایت فقیہ ایرانی سیاسی چیز ہے؟
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
Answer ( 1 )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام علیکم
ولایت فقیہ کوئی ایرانی سیاسی اصطلاح نہیں ، بلکہ یہ اسلامی اور قرآنی نظام ولایت کا حصہ ہے ، ولایت فقیہ،غیبت کے زمانے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کا تسلسل ہے ، اور اس کا ما حصل یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی طرز حکومت، اسلامی اور شرعی ہونی چاہئے ۔ شریعت اسلام کے فقہی احکام کے مقابلہ میں ہر قانون باطل ہے لہذا اس اسلامی حکومت کا حاکم ایسا شخص ہو جو نہ صرف فقہ سے آگاہی رکھتا ہو بلکہ اس میں اجتہاد کی حد تک مہارت رکھتا ہو، جو فقہی احکام کو اس کے اصل مصادر یعنی آیات و روایات سے استنباط و استخراج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ ایسے فرد کو امام معصوم علیہ السلام نے زمانہ غیبت میں نیابت عامہ سونپا ہے اور لوگوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ ولی فقیہ وہی حاکم شرع ہے جو دنیاوی حکمرانوں کی طرح نہیں بلکہ وہ خود فقہ کا تابع ہے اور اسلامی فقہ سے اس کی ذرا برابر عدولی اس کی ولایت کو ساقط کرسکتی ہے ۔
ولایت فقیہ کا مطلب اگر انسان ٹھیک سے سمجھ جائے تو سارے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ ولایت کہتے ہیں حکومت کو اور فقیہ کہتے ہیں اس شخص کو جو دین میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو، پس ولایت فقیہ کا مطلب ہوا فقیہ اور مجتہد کی حکومت۔
ولی فقیہ میں اجتہاد کی شرط کافی نہیں ہے بلکہ اجتہاد تو پہلی شرط ہے ،بلکہ صرف اجتہاد تو مرجعیت کے لئے بھی کافی نہیں ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام مرجعیت کے صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فاما من کان من الفقهاء: صائناً لنفسه، حافظاً لدینه، مخالفاً علی هواه، مطیعا لامر مولاه، فللعوام این یقلدوه ۔ فقہا میں سے جو اپنے نفس کا محافظ ہو اپنے دین کا پاسبان ہو، اپنی ہویٰ و ہوس کا مخالف ہو، اپنے مولا کے امر کا مطیع ہو، تو عوام پر واجب ہے کہ اس کی پیروی کریں
وسائل الشیعه، ج 27، ص 131
اس حدیث میں ایک صفت علمی ہے تو باقی تمام صفات اخلاقی ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فقاہت کے بعد جو صفات مرجعیت کو متعین کرتی ہیں وہ زیادہ تر اخلاقی صفات ہیں ۔ اور ولایت فقیہ کا عہدہ مرجعیت سے زیادہ خطیر ہے لہذا ولی فقیہ میں صفات مرجعیت کے علاوہ دیگر اور بھی صفات کا ہونا ضروری ہے ۔
غیبت صغری کے زمانہ میں نواب اربعہ کے صفات اور خصوصیات پر اگر غور کریں تو بات واضح ہو جائے گی کہ ایسے خطیر عہدہ کے لئے ایک جامع شخصیت کا ہونا بہت ضروری ہے ، ورنہ ہو سکتا ہے کہ کوئی علمی میدان میں بہت آگے ہو لیکن دوسرے سیاسی، اجتماعی ، اقتصادی، ثقافتی ، اداری مدیریتی اور انتظامیہ امور میں کم معلومات ہو ، یا معلومات تو ہو مگر مہارت نہ ہو ، تو ایسا شخص اپنے مہارتی میدان میں مرجع انام تو ہو سکتا ہے لیکن جامع شخصیت نہ ہونے کی وجہ سے ولایت فقیہ کا عہدہ نہیں سنبھال سکتا ۔
امام کے نواب اربعہ جامع شخصیت کے حامل تھے ،البتہ جامعیت کا مطلب اعلمیت نہیں ہے ، ایسا نہیں تھا کہ علمی اعتبار سے نواب اربعہ اپنے زمانے کے اعلم تھے ، بلکہ ان سے زیادہ علمی شخصیات موجود تھیں ، لیکن وہ لوگ جامع شخصیت کے حامل نہیں تھے ، خاص کر سیاسی سماجی سوجھ بوجھ ، وقت کے تقاضوں پر گہری نظر، مدیر و مدبر اور انتظامیہ صلاحیت کا حامل ہونا ، ایسے اہم عہدہ کے لئے بہت اہم ہے ۔ لہذا ایران کے بنیادی آئین میں رہبر کے شرائط میں اس طرح آیا ہے :
۱۔ ابواب فقیہ میں اجتہاد اور افتا کی صلاحیت
۲۔ امت اسلام کی رہبری کے لئے لازمی عدالت اور تقوی
۳۔ سیاسی اور اجتماعی صائب نظر ، تدبیر ، شجاعت ، قیادت کے لئے لازمی قوت اور انتظامیہ صلاحیت
قانون اساسى جمهورى اسلامى ، اصل یکصد و نهم
غور کیجئے یہاں رہبر کے لئے ایرانی ہونا شرط نہیں ہے جبکہ ایران کے صدر جمہوریہ کے لئے ایرانی ہونا شرط ہے وہ بھی نسلی ایرانی یعنی اگر کوئی غیر ایرانی بعد میں ایرانی شہریت حاصل کر لے وہ بھی ایران کا صدر نہیں بن سکتا ، لیکن ولی فقیہ کے لئے حتی ایرانی ہونے کی بھی کوئی شرط نہیں ہے ، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ولی قفیہ کوئی ایرانی عہدہ نہیں ہے ، بلکہ اسلامی قرآنی شیعی اور عالمی نظام ولایت کا ایک حصہ ہے ۔
اس سلسلہ میں بہت سی قرآنی ، روائی نیز عقلی دلیلیں بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں :
ولایت فقیہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا محض تصور ہی اس کی تصدیق کا سبب ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے شاید کسی برہان و دلیل کی ضرورت ہی نہ ہو کیونکہ جو بھی اسلام کے عقائد و احکام سے اگر اجمالی طور پر ہی مگر صحیح سے واقف ہو جیسے ہی وہ ولایت فقیہ کے مسئلہ تک پہنچتا ہے فورا اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کو ضروریات دین اور بدیہی چیزوں میں پاتا ہے،اگر ہم صرف اتنا جان لیں کہ اسلامی معاشرہ میں الہی احکام کو نافذ کرنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو دین کی گہری سمجھ رکھتے ہوں تو بس اتنا ہی کافی ہے۔ جو شخص یہ مانتا ہو کہ معاشرے میں خدا کے احکام اور اسلامی قانون کا نفاذ ہونا چاہیے اور اس بات کو خدا اور اسلام پر اعتقاد رکھنے کا لازمہ سمجھتا ہو تو جو اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو ایسا شخص ولایت فقیہ کو سمجھنے کے لیے کسی استدلال کا محتاج نہیں رہے گا۔
وہ معاشرہ جہاں الہی اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہ ہو اور اس بات پر راضی ہو کہ اس معاشرہ کا حاکم ایک ایسا شخص بن جائے جو انسانی صفات سے عاری ہو تو ایسا معاشرہ ایک فلمی ادا کار، ایک بڑے سرمایہ دار اور انہیں جیسے افراد کو زمام حکومت سونپنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا لیکن وہ معاشرہ جو الہی اور دینی اقدار کا پابند ہو توحید پروردگار کو دل و جان سے قبول کرتا ہو نبیوں کی نبوت پر اعتقاد رکھتا ہو خدا کی شریعت کا قائل ہو ایسے معاشرے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کو حاکم کے طور پر قبول کرے جو خدا کی شریعت سے گہری واقفیت رکھتا ہو الہی اخلاق سے آراستہ ہو گناہ نہ کرتا ہو عمدی غلطیاں اس سے سرزد نہ ہوتی ہوں، ظلم نہ کرتا ہو، مفاد پرست نہ ہو، لوگوں کا درد رکھتا ہو، الہی اقدار کو اپنی ذات اور اپنے گروہ کی منفعت پر ترجیح دیتا ہو۔
آج اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ دو ایسے موضوعات ہیں جن کی فقہ جعفری اور عقلی معیارات کے نزدیک ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ اگر انسان اپنی گفتگو کی بنیاد عقلی معیارات کو قرار دے تو تمام حکومتی نظریوں میں یہ نظریہ پوری طرح واضح، روشن اور قابل دفاع نظریہ نظر آئے گا۔
عقلی دلیل :
کوئی بھی قوم اور ملت بغیر کسی سر پرست، صدر یا رہبر کے اپنی سماجی حیات کو باقی نہیں رکھ سکتے کیوں کہ اپنے دینی و دنیوی امور کی ادائیگی کے لیے وہ ہر قدم پر ایک سرپرست یا رہبر کے محتاج ہیں جو ان کے دنیوی یا دینی امور کی رہبری اور رہنمائی کرے یہ چیز تمام انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے اور ایک فطری چیز ہے لہذا خداوند عالم نے ہر قوم کے لیے ایک رہبر اور ہادی مقرر کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی مخلوق بغیر رہبر کے ایک قدم بھی زندگی آگے نہیں بڑھا سکتی۔ ایک الہی رہبر ہونا چاہیے جس کے وجود سے قوم کو تقویت ملے اور اسی کی سربراہی میں وہ دشمنوں کا مقابلہ کریں ۔
ولی الامر کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر اسلامی معاشرہ میں اولی الامر قانون کے محافظ امانتدار خدمتگزار، نظم و ضبط برقرار کرنے والے کے عنوان سے موجود نہ ہو تو دین میں رد و بدل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اسلامی احکام اور اسلامی سنتیں الٹ پھیر کا شکار ہو جاتی ہیں اور نئی چیزیں داخل کرنے والے بدعتی لوگ سنتوں کو بدعتوں میں بدل دیتے ہیں، بے دین اور ملحد افراد دین سے بہت سی چیزیں کم کر دیتے ہیں اور پھر ایک نئے انداز سے مسلمانوں کے سامنے اس کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس تبدیلی کے بغیر دین باقی نہیں رہ سکتا تھا۔
روایی دلیل :
اس باب میں قرآن بالخصوص روایات سے ماخوذ بہت زیادہ ہیں جن سب کو یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اثبات مدعیٰ کے لیے صرف ایک دلیل کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
مقبولہ عمر ابن حنظلہ
اس حدیث کو کتب اربعہ کے مصنفین کلینی ، شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے اپنی معتبر ترین کتابوں میں ذکر کیا ہے
کلینی، الکافی، ۱۳۶۹ش، ج۱، ص۶۷-۶۸
شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۸-۹
شیخ طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۳۶۴ش، ج۶، ص۲۱۸
محمد بن یعقوب، عن محمد بن یحییٰ، عن محمد بن الحسین، عن محمد بن عیسی، عن سفوان بن یحییٰ، عن داود بن الحصین، عن عمر بن حنظلہ: قال سالت ابا عبد اللہ (علیہ السلام) عن رجلین من اصحابنا بینھما منازع فی دین او میراث فتحاکما الی السلطان و الی القضا یحل ذالک؟ قال من تحاکم الیہم فی حق او باطل، فانما تحاکم الی الطاغوت و ما یحکم لہ، فانما یاخذہ سحتا و ان کان حقا ثابتا لہ لانہ اخذہ یحکم الطاغوت و ما امر اللہ ان یکفر بہ۔ قال اللہ تعالیٰ: ” یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ۔ قلت کیف یصنعان؟ قال: ینظران من کان منکم ممن قد روی حدیثنا و نظر فی حلالنا و حرامنا و عرف احکامنا ۔۔۔ فلیرصوا بہ حکما۔ فانی قد جعلتہ علیکم حاکما۔۔۔
عمر بن حنظلہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) سے ایسے دو شیعوں کے بارے میں سوال کیا جن کے درمیان قرض یا میراث کے حوالے سے اختلاف تھا اور اس نزاع کے حل کے لیے ان لوگوں نے قاضی کی طرف رجوع کیا تھا میں نے امام سے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے؟ اس پر امام نے فرمایا: جو بھی اپنے حق یا ناحق جھگڑوں میں ان (قاضیوں) سے رجوع کرے در حقیقت اس نے طاغوت سے مراجعہ کیا ہے اور جو بھی ان کے حکم سے کچھ لے در حقیقت حرام کے طور پر لے گا اگر چہ لی ہوئی چیز اس کا ثابت شدہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ جو لیا ہے وہ طاغوت کے حکم سے لیا ہے جس کے بارے میں خدا نے یہ فرمایا ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔ خداوند عالم فرماتا ہے: اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے۔
سورہ نسا آیت۶۰
میں نے پوچھا کہ وہ لوگ کیا کریں تو امام نے فرمایا: انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ تم میں سے وہ کون ہے جو ہماری حدیثوں کو بیان کرتا ہے، ہمارے حلال و حرام کو جانتا ہے اس میں صاحب نظر ہو چکا ہے اور ہمارے احکام وقوانین کو بخوبی جانتا ہے لہذا چاہیے کہ ایسے شخص کو قاضی کے عنوان سے قبول کریں کیونکہ میں نے اس کو تمہارا حاکم قرار دیا ہے۔
حسینی تهرانی، ولایت فقیه در حکومت اسلام، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۲۰۰
اس روایت میں امام سے یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ سلاطین اور حکومتی اداروں یا قاضیوں سے رجوع کرنا کیسا ہے؟ تو امام فرما رہے ہیں: ”انی قد جعلت علیکم حاکما‘‘۔ میں نے مذکورہ شرائط کے حامل شخص کو تمہارا حاکم بنایا ہے قانونی اور حکومتی امور کو نافذ کرنے کے لیے میں نے اسے تمہارا حاکم معین کیا ہے مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور کے پاس اپنے معاملات طے کریں۔
امام نے یہ جو حکم صادر فرمایا ہے وہ ایک کلی اور عمومی حکم ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی ظاہری خلافت میں قاضیوں اور حاکموں کا تقرر فرمایا کرتے تھے اور تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ ان معین شدہ قاضیوں اور حاکموں کی اطاعت کریں۔ حضرت امام صادق علیہ السلام بھی چونکہ ولی امر مطلق ہیں جو تمام علماء و فقہا اور دنیا کے تمام لوگوں پر حکومت کا حق رکھتے ہیں اس لیے اپنی حیات اور موت کے بعد حاکم اور قاضی کا تعین فرما سکتے ہیں اور آپ نے یہی کام کیا اور اس منصب کو فقہا کے لیے مخصوص کیا۔ آپ نے ”حاکما‘‘ کی تعبیر استعمال کی تاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اس حکم میں صرف یہ قانونی امور ہی پیش نظر ہے دوسرے حکومتی امور سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہے اس وہم کو ”حاکما‘‘ کی تعبیر سے دور کر دیا۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا مذکورہ حکم یعنی علما کی حاکمیت خود امام کے دور میں بھی ثابت ہے تو غیبت کے زمانہ میں تو بدرجہ اولی ثابت ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ولی فقیہ ایک ہی ہوگا اور دوسرے مراجع کرام اس کے تابع ہونگے یا کئی ولی فقیہ ہو سکتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب کے لئے دو فرض کو مد نظر رکھ کے تجزیہ و تحلیل کرنا ہوگا ۔
۱۔ اسلامی حکومت کا قیام ناممکن ۔
۲۔ اسلامی حکومت کا قیام ۔
۱) پہلی صورت یعنی جب حالات ایسے ہوں کہ اسلامی حکومت قیام ممکن نہ ہوتو قول مشہور یہ ہے کہ وہ تمام فقھا کرام جو واجد الشرائط ہیں امور حسبیہ میں ولایت رکھتے ہیں۔ البتہ یہ الگ بحث ہے کہ امور حسبیہ سے مراد کیا ہے؟ اور امور حسبیہ کا دائرہ کتنا ہے ؟ کیا کیا امور حسبیہ میں شامل ہیں اور کیا شامل نہیں ہیں ؟ مگر امور حسبیہ میں ولایت فقیہ مسلم ہے۔ ہر فقیہ امور حسبیہ میں ولایت رکھتا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ عالم تشیع میں ولایت حسبیہ کو سبھی مانتے ہیں کوئی بھی اس کا منکر نہیں ۔ ولایت حسبیہ کے مقابلہ میں ولایت مطلقہ ہے جو فقیہ کو حکومت قائم کرنے کا بھی حق دیتی ہے ۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہے کہ ولایت مطلقہ ، ولایت حسبیہ کے مقابلہ میں ہے ، اور یہ کہ یہاں ولایت مطلقہ سے مراد ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت مطلقہ نہیں ہے ، بلکہ ولایت مطلقہ سے مراد حق حکومت ہے ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب اسلامی حکومت کا قیام ممکن ہو ۔
۲) دوسری صورت میں جب اسلامی حکومت قائم ہو گئی ہے اور اسلامی حکومت محقق ہو گئی ہے، ایسی صورت میں ظاہر سی بات ہے خود فقھا کی تشخیص و تعیین کی بنیاد پر، جامع الشرائط فقھا میں سے سب سے زیادہ مناسب کوئی ایک فقیہ جس میں فقاھت کے ساتھ ساتھ سیاسی سوجھ بوجھ ، تدبیر اور لازمی انتظامیہ صلاحتیں بھی موجود ہوں، ایسا جامع الاشرائط فقیہ بالفعل ولایت کے عہدہ کو سنبھالے گا ، ایسی صورت میں ہرگز متعدد ولی فقیہ قابل تصور نہیں ۔ ولی فقیہ بالفعل ایک ہی ہوگا ۔ ایک مملکت میں ایک ہی حاکم ہوگا ۔ اگر چہ تمام فقھا بالقوہ ولی فقیہ ہو سکتے ہیں ، لیکن جب خود فقھا نے مل کے خاص صلاحیتوں کی بنا پر کسی ایک فقیہ کو ولایت فقیہ کا عہدہ سونپ دیا تو پھر ولی فقیہ ایک ہی ہوگا ، اور سب پر اس کی اطاعت واجب ہوگی ۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حاکم ولی فقیہ ایک ہی ہوگا اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر فقھا کا کوئی کردار نہیں ہوگا بلکہ وہ فقھا شئون حکومت میں مشورت کے ذریعہ ولی فقیہ کے مددگار ہو سکتے ہیں اور اس طرح اسلامی نظام کو مزید مستحکم بنا سکتے ہیں ۔
یہاں ایک اور بات قابل غور ہے وہ یہ کہ جس طرح کسی بھی مجتھد اور مرجع تقلید کا فتوی ملکوں کی سرحدوں میں محدود نہیں رہتا، اسی طرح ولی فقیہ کی ولایت بھی کسی سرحد میں محدود نہیں ۔ کیونکہ اسلام میں آج کی طرح رائج ملکوں کی سرحدوں کا کوئی تصور نہیں ، اسلام کی نظر میں پوری دنیا ایک ملک کی طرح ہے ، اگر چہ اسلام کا یہ آفاقی تصور ابھی تک پوری طرح سے محقق نہیں ہو سکا ، اور امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے بعد یہ بھی پوری طرح سے محقق ہو جائے، لیکن جب تک جتنا ممکن ہو سکے ولی فقیہ کی ولایت عالمی ہی رہے گی البتہ ظاہر سی بات ہے دوسری حکومتوں کی مزاحمتوں کی وجہ سے دیگر ممالک میں ولی فقیہ کے ہاتھ اتنے کھلے نہ ہونگے ، جتنا اسلامی حکومت کے قلمرو کے اندر کھلے ہونگے ۔
ولایت فقیه آیت الله جوادی آملی ص 400 چاپ اول 1378 ه . ش– مرکز نشر اسراء.