حضرت عباس کی جھوٹی قسم کا کفارہ کیا ہے؟

سوال

Answer ( 1 )

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم

    سلام علیکم و رحمۃ اللہ
    ۔ قسم کا کفارہ واجب ہونے کی چند شرطیں ہیں:۔
    ۱۔ جو شخص قسم کھائے ضروری ہے کہ وہ بالغ اور عاقل ہو نیز اپنے ارادے اور اختیار سے قسم کھائے۔ لہذا بچے یا دیوانے یا بے حواس یا اس شخص کا قسم کھانا جسے مجبور کیا گیا ہو درست نہیں ہے۔ اور اگر کوئی شخص جذبات میں آکر بلا ارادہ یا بے اختیار قسم کھائے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
    ۲۔ (قسم کھانے والا) جس کام کے انجام دینے کی قسم کھائے ضروری ہے کہ وہ حرام یا مکروہ نہ ہو اور جس کام کے ترک کرنے کی قسم کھائے ضروری ہے کہ وہ واجب یا مستحب نہ ہو۔ اور اگر کوئی مباح کام کرنے کی قسم کھائے تو اگر عقلاء کی نظر میں اس کام کو انجام دینا اس کو ترک کرنے سے بہتر ہو تو اس کی قسم صحیح ہے اور اسی طرح کسی کام کو ترک کرنے کی قسم کھائے تو اگر عقلاء کی نظر میں اسے ترک کرنا اس کو انجام دینے سے بہتر ہو تو اس کی قسم صحیح ہے۔بلکہ دونوں صورتوں میں اگر اس کا انجام دینا یا ترک کرنا عقلاء کی نظر میں بہتر نہ ہو لیکن خود اس شخص کے لئے بہتر ہو تب بھی اس کی قسم صحیح ہے۔
    ۳۔ (قسم کھانے والا) اللہ تعالی کے ناموں میں سے کسی ایسے نام کی قسم کھائے جو اس ذات کے سوا کسی اور کے لئے استعمال نہ ہوتا ہو مثلاً خدا اور اللہ ۔ اور اگر ایسے نام کی قسم کھائے جو اس ذات کے سوا کسی اور کے ل۴ے بھی استعمال ہوتا ہو لیکن اللہ تعالی کے لئے اتنی کثرت سے استعمال ہوتا ہو کہ جب بھی کوئی وہ نام لے تو خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہی ذہن میں آتی ہو مثلاً اگر کوئی خالق اور رازق کی قسم کھائے تو قسم صحیح ہے۔ بلکہ اگر کسی ایسے نام کی قسم کھائے کہ جب اس نام کو تنہا بولا جائے تو اس سے صرف ذات باری تعالی ہی ذہن میں نہ آتی ہو لیکن اس نام کو قسم کھانے کے مقام میں استعمال کیا جائے تو ذات حق ہی ذہن میں آتی ہو مثلاً سمیع اور بصیر (کی قسم کھائے) تب بھی اس کی قسم صحیح ہے۔
    ۴۔ (قسم کھانے والا) قسم کے الفاظ زبان پر لائے۔ لیکن اگر گونگا شخص اشارے سے قسم کھائے تو صحیح ہے اور اسی طرح وہ شخص جو بات کرنے پر قادر نہ ہو اگر قسم کو لکھے اور دل میں نیت کر لے تو کافی ہے بلکہ اس کے علاوہ صورتوں میں بھی (کافی ہے۔ نیز) احتیاط ترک نہیں ہوگی۔
    ۵۔ (قسم کھانے والے کے لئے) قسم پر عمل کرنا ممکن ہو۔ اور اگر قسم کھانے کے وقت اس کے لئے اس پر عمل کرنا ممکن ہو لیکن بعد میں عاجز ہو جائے اور اس نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر عاجز نہ کیا ہو تو جس وقت سے عاجز ہوگا اس وقت سے اس کی قسم کالعدم ہوجائے گی۔ اور اگر منت یا قسم یا عہد پر عمل کرنے سے اتنی مشقت اٹھانی پڑے جو اس کی برداشت سے باہر ہو تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
    لہذا حضرت عباس، قرآن یا کسی اور چیز کی قسم کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور اسکو توڑنے کا کوئی کفارہ نہیں۔ بلکہ صرف وہ قسم معتبر ہے جو اللہ تبارک و تعالی کے خاص نام یا صفت اور خاص جملہ کے ساتھ ہو۔

    رسالہ آموزشی آيت الله خامنه اي، قسم کا کفارہ
    http://www.leader.ir
    توضیح المسائل آیۃ اللہ سیستانی۔ مسئلہ نمبر ۲۶۸۰
    https://www.sistani

جواب دیں۔

براؤز کریں۔